ماریہ کو قتل نہیں کیا گیا اس نے خود کشی کی تھی
مری کے نواحی علاقے دیول میں رشتے کے تنازع پر مبینہ طور پر جلا کر قتل کی جانے والی لڑکی ماریہ کے مقدمے کی تفتیشی ٹیم نے اس واردات کو خود سوزی قرار دیا ہے جبکہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے چار میں سے تین ملزمان کو بےگناہ قرار دیا گیا ہے۔
تھانہ مری کے اہلکار مظہر اکرام نے
بتایا کہ ڈی آئی جی ابوبکر اعوان کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس تحقیقیاتی ٹیم نے اس مقدمے میں درج کی گئی قتل کی دفعات کو ختم کردیا ہے۔ اب یہ مقدمہ محض تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت ہی چلے گا۔ تعزیرات پاکستان کی یہ دفعہ قتل بالسبب کے ضمرے میں آتی ہے اور یہ ایک قابل ضمانت جرم ہے۔
پولیس کے مطابق وزیر اعلٰی پنجاب کے حکم پر اس مقدمے کی تفتیش کے لیے قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے جن تین افراد کو بےگناہ قرار دیا ہے ان میں ماٹسر شوکت کے علاوہ میاں ارشد اور رفعت شامل ہیں جبکہ اس رپورٹ میں ایک ہی ملزم ہارون کو ماریہ کی خودکشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق اس کمیٹی نے اپنی حمتی رپورٹ وزیر اعلٰی پنجاب اور آئی جی پنجاب کو بھجوا دی ہے جبکہ متعقلہ پولیس کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ کے دفتر میں تعینات ایک پولیس اہلکار کے مطابق ماریہ صداقت ایک نجی سکول میں پڑھاتی تھی جہاں پر اس کی ملاقات سکول کی انتظامیہ میں کام کرنے والے شخص ہارون سے ہوئی۔ پولیس کے مطابق دونوں کے درمیان دوستی تھی جو کافی عرصے تک چلی۔
اُنھوں نے کہا کہ کاروباری معاملے پر لڑکی ماریہ صداقت اور ہارون کے والد کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا جس پر ملزم ہارون نے ماریہ کو دوستی ختم کرنے کی دھمکی دی۔
پولیس کے مطابق ماریہ نے دلبرداشتہ ہو کر خود کو آگ لگا لی تاہم ہسپتال پہنچنے کے بعد پولیس کا موقف ہے کہ ماریہ نے ماسٹر شوکت اور دیگر افراد کے نام اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے دباؤ کے تحت دیے جس میں ماریہ کا کہنا تھا کہ اُسے ماسٹر شوکت، اُن کے بیٹے ہارون اور دیگر دو افراد نے آگ لگائی ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اس تحقیقاتی ٹیم کے مطابق جائے حادثہ سے جو شواہد اکھٹے کیے گئے اُن میں ماسٹر شوکت اور دیگر ملزمان کی موجودگی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملے۔
پولیس کے مطابق ماریہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے اپنی رپورٹ میں اُن کے جسم پر کسی بھی قسم کے تشدد کی نفی کی ہے۔
پولیس اہلکار کے مطابق اس تحقیقاتی ٹیم نے ماریہ اور ہارون کے موبائل کا ڈیٹا بھی نکلوایا ہے جس کے مطابق ان دونوں نے ایک دوسرے کو چھ ہزار سے زائد کالیں اور ٹیسکٹ میسجز بھیجے ہیں۔
واضح رہے کہ مئی کے آخر میں ہونے والے اس واقعہ کے بعد پولیس نے ملزمان کے خلاف قتل کے علاوہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا تاہم متعلقہ عدالت نے اس مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ملزمان راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی اس رپورٹ کے بعد ان ملزمان کی ضمانتوں میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔