حضرت لعل شہباز قلندر مروندی
اللہ تعالی نے اپنے بہت سے بندوں کو ہدایت اور توفیق بخشی کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم حاصل کریں،روشن سینے کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کریں اور تفویض کردہ خطوں میں ظلم و جبر کے نظام کو زمیں بوس کر دیں۔ تین عظیم شخصیتیں، جو مختصر عرصے کے فرق سے اس دنیا میں ظہور ہوئیں، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، سید محمد عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ اور بہائو الدین زکریاؒ ہیں۔ ان کی آمد کے بعد ظلم و کفر کی آگ سرد ہو گئی اور انہیں کئی معاملات پر ایک جیسی جدوجہد،مراحل اور واقعات سے گزرنا پڑا۔ حضرت شہباز قلندرؒ جن کا اصل نام محمد عثمان تھا ، اکثریتی تحقیق و اتفاق رائے کے مطابق538ھ میں تبریز کے نزدیک ایک مقام مروند میں پیدا ہوئے۔ اس خوبصورت مقام پر وہ خوبصورت شخصیت پیدا ہوئی جس کے ماننے والوں میں مسلمان کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیںاور یہ سب حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپؒ بچپن سے انتہائی ذہین اور روشن دماغ تھے۔ آپؒ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے، اس لئے اپنے شہر مروند میں ہی مقیم رہے۔ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ۔مروند سے سید عثمان مروندیؒ کی روانگی یوں ہوئی کہ جب آپؒ اٹھارہ برس کے ہوئے ، تو والد محترم سیدابراہیم کبیر الدینؒ انتقال فرما گئے۔ حضرت محمد عثمان مروندیؒ کے مرشدحضرت شاہ جمالؒ تھے۔ جو اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ اور درویش تھے۔ حضرت لعل شہبازقلندرؒ نے مرشدکی بیعت میںدرویشی کے نئے اسرارو رموز تک رسائی حاصل کی۔حجاب کے پردے اٹھتے گئے اور عشق حقیقی کے راستے پر سفر طے ہونے لگا۔آپؒ نے مرشد کی خدمت کی اور اس کے عوض ان کی محبت اور لازوال تحائف حاصل کئے۔ مرشد نے حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ کو گلو بند عنایت کیا ۔حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ اس گلوبندکو بہت عزیزرکھتے تھے، انہیں اس گلو بندمیں اپنی عالی مرتبت مرشد کی تصویر نظر آتی تھی۔یہ گلوبند درگاہ حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ میں موجود ہے اور سالانہ عرس کے موقع پر لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں اس کے علاوہ خرقۂ خلافت اور ایک عصا عنایت ہوا جو بادام کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔روایت کے مطابق حضرت امام زین العابدینؒ یہ عصا اپنے دست مبارک میںرکھتے تھے۔ بیعت ہونے کے بعد حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ نے اپنی ریاضت کا نیاسلسلہ شروع کیا۔ اس دوران بہت سے بزرگان دین سے ملاقاتیںکیں اور فیوض و برکات کی دولت تقسیم کرتے مکہ معظمہ پہنچے، وہاں حج کا فریضہ ادا کیا اور مدینہ منورہ چلے گئے۔رحمت اللعالمینؐ کے روضہ اقدس پر حاضری دی۔دل و جان کو رحمت سے فراز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ کے مرشدنے آپؒ کو ر اہ دکھائی اور ہدایت کی کہ آپؒ ہندوستان چلے جائیں۔ آپؒ نے ملتان میں قیام کیا اور بالاآخر سیوستان میں مستقل طور پرٹھہر گئے کہ یہی جگہ آپؒ کا آخری مقام قرار دی گئی۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی آمد سے بہت پہلے ان کے ایک مرید نے وہاں ٹھکانہ بنا لیا۔ اس کانام بودلے سکندربیان کیا جاتا ہے۔ آپؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہاں آئے۔سیہون شریف ریلوے اسٹیشن کے قریب ’’ لال باغ ‘‘ ہے جس کا نام مرشد کامل کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ ۔ یہاں شہباز قلندر ؒ نے چلہ کشی کی تھی۔سیہون ریلوے اسٹیشن کے جنوب میں ایک پہاڑ کے اندر ایک غار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس غار میں لعل شہباز قلندرؒ نے چلہ کشی کی تھی ۔ آ پؒ یہاں عبادت بھی کرتے تھے۔ دھمال دراصل ایک سر ، ایک لے کا نام ہے جس کا اظہار دھل یا نقارہ پر ضرب لگا کر کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز سے فقیر ، درویش وجد کی کیفیت میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایک حلقہ بنا کر رقص کرتے ہیں۔یہ طریق حضرت مولانا رومی ؒ کے مریدوں کے محفل سماع سے ملتا جلتا ہے وہاں سماع کے وقت لوگ دف بجایا کرتے تھے ، تب کچھ لوگ کھڑے ہو جاتے اور آہستہ آہستہ رقص کی کیفیت میں آجاتے ۔ عرس اور میلے کے دنوں میں پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں ۔ وہاں وہ صرف لعل شہباز قلندر ؒ کے دیوانے ہوتے ہیں ، مختلف علم ( جھنڈے ) اٹھائے قافلے جوق در جوق آتے ہیں ۔ سخی شہباز قلندرؒ کا وصال شعبان کے مہینے میں ہوا ۔ اور ہر سال اسی مہینے میں آپؒ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں دوردراز کے علاقوں سے بلا تمیز مذہب ، ذات ، رنگ و نسل لوگ شریک ہوتے ہیں۔