Featuredاسلام آباد

ایوان بالا میں بجٹ پہ بحث، اراکین فنڈز کا رونا روتے رہے

ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے حکومتی و اپوزیشن سینیٹرز وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا رونا روتے رہے جبکہ بلوچستان سے حکومتی اتحادی بھی بلوچستان کو وسائل نہ دینے کا شکوہ کرتے رہے، بلوچستان کو نہ پانی اور نہ ہی بجلی کے منصوبوں کے لیے پیسے دیئے جا رہے ہیں، خارجہ و داخلہ پالیسی ایوان کو بنانی چاہیے تا کہ ہماری مشکلات کم ہوں۔ احتساب ضروری ہے، پی پی پی کی طرف سے طعنے قیامت کی نشانی ہے۔ سینیٹ اجلاس میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر موسیٰ خیل نے کہا کہ حکومت دفاعی بجٹ کے معاملے بہت سخی واقع ہوئی ہے مگر دوسری طرف ترقیاتی بجٹ کم کردیا ہے، بلوچستان کیلئے کم رقم رکھی گئی ہے، تعلیم کیلئے بجٹ زیادہ ہونا چاہیے تاکہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کیا جائے، بلوچستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومت نے وسائل سے محروم رہتا ہے۔ بلوچستان میں عوام لکڑیاں جلاتے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں ان کی گیس پر عیاشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شفافیت کیلئے سب اداروں کا ایک طریقہ سے احتساب ہونا چاہیے، عدلیہ اور فوج کیلئے الگ قانون نہیں ہونا چاہیے، ایف سی کے دو آئی جیز نے بالترتیب 13اور 15ارب کی کرپشن کی مگر ان کو باعزت طور پر گھر بھیج دیا گیا، اٹھارویں ترامیم کے خلاف ہر طرف سے آوازیں آرہی ہیں اگر مداخلت کی گئی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اگر فاٹا کی عوام کی مرضی کی بغیر فاٹا کو چھیڑا گیا تو ایک نیا بحران پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے، داخلہ اور خارجہ پالیسی پارلیمان بنائے تو ہماری مشکلات کم ہوں گی، الیکشن کمیشن کو اختیارات دیئے مگر وہ ہمارے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ عدالتوں سے فیصلے ڈکٹیشن پر کئے جارہے ہیں جس کا لوگ مذاق اڑا رہے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑانا چاہیئے۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے بلوچستان کے نام پر جمع اور تفریق کی یہ آؑ رٹیکل 6 کے ذمرے میں آتا ہے، اگر یہ صوبہ بلوچستان میں قرارداد لائیں کہ ہم صوبہ کے پی کے کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو ہم ایم پی ایز کے قدم پکڑ کر ان کو کہیں گے کہ ان کی حمایت کرو، بلوچستان کیلئے پانی بڑا مسئلہ ہے اس کیلئے وسائل کم رکھے گئے ہیں ،ہمیں ساڑھے تین سو ڈیموں کیلئے پانچ سو ارب روپے چاہیں اگر ڈیم نہ بنائے گئے تو لوگ وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دل کے ہسپتال کی اشد ضرورت ہے، ہمیں اتنے بڑے نئے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی ضرورت نہیں تھی، ہمارے جہاز پہلے ہی پورے نہیں ہیں۔ سینیٹر اسد علی جونیجو نے کہا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جمہوریت کی وجہ سے ہم ایوان میں ہیں، بجٹ میں مقدس کتابوں کے لیے ڈیوٹی فری پیپرز کا استعمال قابل تحسین ہے جبکہ الیکٹرک کار پر ڈیوٹی کم کرنا سمجھ سے باہر ہے پاکستان میں الیکٹرک کار کے حوالے سے کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں۔ سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے کہا کہ غیر آئینی بجٹ پیش کیا گیا، سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اس بجٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس سے مہنگائی بڑھے گی، نوجوانوں کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا جو ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں، ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد کم ہو گئی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا دعوٰی تھا کہ ہم ٹیکس فائلرز کو بڑھائیں گے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ بجٹ آئینی ہے اور بجٹ پیش کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی، اگر اداروں کا آخری دن ہو تب بھی وہ کام کرتے ہیں 2018ء میں مسلم لیگ نواز اکثریت کے ساتھ دوبارہ حکومت بنائے گی، باوجود اس کے کہ مسلم لیگ نواز کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ 2018ء میں اگر آٹھ جماعتیں مل جائیں تب اپوزیشن کی حکومت بنے گی تو اس وقت یہ بجٹ کو تبدیل کر سکتے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت نے انڈسٹری تباہ کر دی تھی۔ سی این جی کی لمبی قطاریں ہوتی تھیں، دہشت گردی کا بُرا حال تھا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ملاقاتیں دبئی میں ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سب کے سامنے ہیں، عمران خان نے کے پی کے میں دو سو ڈیم بنانے کا دعوٰی کیا تھا مگر ایک میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کی، ہمارے میٹرو کو جنگلہ بس کہتے تھے اور اب میٹرو کے لیے پورا پشاور کھود دیا ہے، پیپلز پارٹی کراچی میں حکومت کے باوجود امن نہیں لا سکی مگر جب وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو اس نے کراچی میں امن کے لیے آپریشن کیا جس سے روشنیاں واپس لوٹ آئیں،احتساب ضروری ہے لیکن پی پی پی کی طرف سے طعنے قیامت کی نشانی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close