پلان میں سب کچھ ہے لیکن ایکشن نہیں
پاکستان میں شدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان سے حوالے منعقدہ ایک سیمنیار میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس پلان پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں پارلیمان اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔
جمعرات کو اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں بھٹو شہید فاؤنڈیشن کی جانب سے’ نیشنل ایکشن پلان ‘کے نام سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ اس پلان میں سب کچھ ہے لیکن’ ایکشن‘ نہیں ہے۔
افراسیاب خٹک نے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ایسا لگتا ہے وزیرِ داخلہ دہشت گردی کو جائز قرار دے رہے ہیں۔‘
اے این پی کے رہنما نے کہا کہ’نہ تو پنجاب میں جیش محمد اور لشکر طیبہ کے خلاف کچھ کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئٹہ میں موجود افغان طالبان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی جن کے امیر کا انتخاب کچلاک میں ہوا تھا۔
افراسیاب خٹک نے تجویز دیتے ہوئےکہا کہ ’حکومت بری طرح ناکام ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ حکومت کا ارادہ ہی نہیں۔ اب نئے سرے سے بیٹھنے کی ضرورت ہے۔‘
افراسیاب خٹک نے کہا کہ پاک افغان سرحد سیل نہیں ہو سکتی کیونکہ عملاً ایسا ممکن نہیں لیکن بار بار یہ کہہ کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مسئلہ یہاں نہیں وہاں ہے۔‘
ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی نے کہا کہ یہ پلان حکومت کا نہیں بلکہ قومی پلان ہے جسے تمام سیاسی جماعتوں نے ملکر بنایا ہے تاہم انھوں نے شکوہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بات کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔
’حکومت سیاسی جماعتوں میڈیا اور عوام کو بتائے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے اور کیا رکاوٹیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی اور اس کی مثال یہ ہے کہ ’نیشنل ایکشن پلان کے 16ویں نکتے میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے تاہم اس پلان کے کئی ماہ بعد جب کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو انھیں کالعدم تنظیموں میں سے ایک نے 209 میں سے 09 نشستیں حاصل کیں۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نےاپنے خطاب میں ملک میں دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نیکٹا کے فعال نہ ہونے اور کالعدم تنظیموں پر سوالات اٹھانے کے علاوہ لال مسجد کے سابق خطیب کے خلاف مقدمے کی موجودگی کے باوجود وزارتِ داخلہ کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس کےعلاوہ فوجی عدالتوں سے پھانسی پانے والے دہشت گردوں کی تعداد پر بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 18 دسمبر 2015 تک حکومت کو یہ معلوم نہیں تھا کے ملک میں کل کتنی کالعدم تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور کتنی نام بدل کر کام کر رہی ہیں۔
’پارلیمان میں جب وزیرِ داخلہ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ معلوم نہیں، صوبوں سے پوچھ کر بتائیں گے۔‘
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جہاں یہ الزام لگایا کہ حکومت اب بھی کالعدم تنظیموں یا دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے وہیں یہ بھی اعتراف کیا کہ شاید حکومت پر نہ نظر آنے والی قوتوں کا دباؤ بھی موجود ہے۔
سینیئر صحافی سلیم صافی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 13 نکات پر سرے سے کام ہی نہیں ہوا جبکہ تین ایسے نکات ہیں جن پر تھوڑا بہت کام ہوا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اور سیاسی جماعتو نے نیسنل ایکشن پلان تو بنا لیا مگر ’نہ تو اس کا روڑ میپ بنایا گیا، نہ جائزہ لینے کے لیے مانیٹرنگ کا طریقہ کار وضع کیا گیا اور نہ ہی وزیراعظم کی سربراہی میں بنائی جانے والی کمیٹی کا کوئی اجلاس منعقد ہوا۔
اس تقریب کی چیئرپرسن شیریں رحمٰن نے انسدادِ دہشت گردی فورس کی غیر فعالیت اور پنجاب میں کارروائی نہ ہونے پر تنقید کی۔
انھوں نے کہا کہ ’قومی بیانیہ نظر نہیں آتا اور یہ سوال صرف ہم نہیں فوج بھی کرتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں حکومت کے خلوص پر کوئی شک نہیں تاہم حکومت نہ تو قومی بیانیہ دے سکی ہے نہ عوام کو حوصلہ۔
اپنے خطاب میں شیریں رحمنٰ نے چارسدہ حملے کے بعد وزیراعظم کی مسلسل عدم موجودگی اور وزیرِ داخلہ کی جمعرات کو کی جانے والی پریس کانفرنس پر بھی کڑی تنقید کی اور بار بار ایک ہی سوال دہرایا کہ ہمیں یہ تو بتائیں آپ کا پلان ہے کیا؟‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر کھلے عام نہیں بتا سکتی تو بند کمرے میں پارلیمان کے اجلاس میں عوام کے منتخب نمائندوں کو صورتحال سے آگاہ کرے اور اعتماد میں لے