پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پانچ روزہ معرکہ آج لارڈز میں سجے گا
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 4 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا ٹیسٹ آج سے لارڈز کے تاریخی اسٹیڈیم میں شروع ہونے جا رہا ہے۔
4 ٹیسٹ میچز کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ لارڈز کے تاریخی اسٹیڈیم میں پاکستانی وقت کے مطابق سہہ پر 3 بجے کھیلے جانے والے پہلے ٹاکرے کے لیے دونوں ٹیمیں نے کمریں کس لی ہیں، تیاریاں مکمل ہیں،عزائم جواں ہیں اور دونوں ہی ٹیمیں فتح کے لیے پرامید ہیں۔
پاکستان و برطانیہ دنیائے کرکٹ کی بہترین کرکٹ ٹیموں میں شمار ہوتی ہیں برطانیہ بابائے کرکٹ ہے تو پاکستان صلاحیت و مقابلے میں ثانی نہیں رکھتا،انگلینڈ پیشہ وارانہ کرکٹ میں کمانڈ رکھتا ہے تو پاکستان “حیران کن” پرفارمنس میں دینے کا ماہرہے،انگلش ٹیم بال ٹو بال کھیلتی ہے تو پاکستان آخری بال پر پانسہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے،کمال و مہارت سے مالامال دونوں ٹیموں کا معرکہ مضبوط اعصاب سے ہی سَرکیا جا سکتا ہے
پاکستان و برطانیہ کی یہ اعصابی جنگ کئی تنازعات کا بھی شکار رہی کبھی امپائرنگ پر سوال اٹھے تو کبھی گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑکے چرچے ہوئے کبھی فکسنگ کے معاملے نے ضرب لگائی تو کبھی بیچوں بیچ کھیل ہی ختم کر دیا گيا۔
اس تلخ تاریخ کا آغاز1956 ہی سے ہو گیا تھا جب پاکستانی امپائر ادریس بیگ پر انگللش کھلاڑیوں کی جانب سے پانی پھینکنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔
1987 مین انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کے درمیان فیلڈ کو غلط طر یقے سے ہٹانے پر ہونے والی تلخ کلامی کے بعد انگلش کپتان ٹیم کو لے کر گراؤنڈ سے نکل آئے تھے تو 2006 میں اوول ٹیسٹ میں پاکستانی کپتان انظمام الحق ٹیم کو میدان سے باہر لے آئے تھے۔
1992 میں وقار اور وسیم کی ریورس سوئنگ سے پریشان انگلش ٹیم نے پاکستانی بولروں پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگایا اور اپنی ناکامی کو چھپانے کی ناکام کوشش کی۔
2010 میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے سیاہ ترین واقعہ بھی برطانیہ سیریز میں پیش آیا جب فکسڈ نو بال کروانے پر فاسٹ بولرز محمد آصف و محمد عامراور کپتان سلمان بٹ کو سزائیں سنائی گئیں اور عالمی سطح پر پاکستان کو سبکی اُٹھانی پڑی تھی۔
پاکستان و برطانیہ کی سیریز انہی تلخ جملوں کے تبادلوں اور گرما گرمی سے شروع ہوتی اور کسی نہ کسی تنازعے پر ختم ہوتی یوں شائقین کو ایک تناؤ سے بھرپور مگر کلاسک کرکٹ دیکھنے کو ملتی۔
آج ہونے والے ٹیسٹ مین قومی ٹیم کے پاس مڈل آرڈر میں مصباح الحق، یونس خان، اظہر علی اور اسد شفیق جیسے قابل بھروسہ بلے باز ہیں جنہوں نے سائیڈ میچ میں ذبردست پرفارمنس سے انگلش بولرز کو مشکلات میں ڈالے رکھا جب کہ بولنگ کے شعبے میں قومی ٹیم کے پاس فاسٹ بولر محمد عامر، وہاب ریاض، راحت علی اور اسپن کے شعبے میں یاسر شاہ اور قومی ٹیم کے اہم ہتھیار ہیں ،محمد عامر انگلش میڈیا اور انگلش ٹیم کی تنقید کی زد پر محمد عامر اپنی پرفارمنس سے ناقدین کے منہ بند کروانے کے لیے بے تاب ہیں۔
دوسری جانب انگلش ٹیم کی بیٹنگ لائن بھی کسی سے کم نہیں کہ انگلش اسکواڈ کے کپتان السٹرکک بہترین فارم میں ہیں اُن کا ساتھ دینے کے لیے ٹیم میں الیکس ہیلز، جوئے روٹ، گیری بیلنس، جیمس ونس، جونی بریسٹو، معین علی، کرس ووکس، اسٹارٹ براڈ، جیک بال، اسٹیون فن اور ٹوبی رولینڈ موجود ہیں۔
سیریز کے آغاز ہی میں ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے لیکن یہ تنازعہ پاکستان اور برطانیہ کرکٹ ٹیم کے درمیان بلکہ انگلش کپتان السٹر کک اور انگلش سلیکٹرز کے درمیان کھڑا ہو گیا ہے،السٹر کک کا کہنا ہے کہ جارح مزاج آل راؤنڈر بین اسٹوک اور فاسٹ بولر جیمس انڈریسن کی ٹیم میں غیر موجودگی سے بیٹنگ اور بولنگ دونوں ہی شعبوں میں انگلش ٹیم مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔