کراچی پولیس کے 820 کیمروں میں سے صرف 17 فعال
شہر میں پولیس کی جانب سے نصب کردہ 820 میں سے صرف 17 کیمرے فعال ہیں۔
چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن نے جمعرات کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم فل بینچ کے سامنے کیمروں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سندھ، میونسپل کارپویشن اور پولیس کی جانب سے الگ الگ کل دو ہزار کیمرے لگائے ہیں جن میں سے سندھ پولیس کے 820 کیمرے ہیں اور ان میں سے صرف 17 فعال ہیں۔
عدالت کے استفسار پر چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ان 820 کیمروں کی تنصیب کے منصوبے پر 50 کروڑ رپے لاگت آئی تھی۔
ان تفصیلات پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ سندھ کے لوگوں کے 50 کروڑ روپے ان غیر معیاری کیمروں پر ضائع کیے گئے ہیں اور وہ اس بات کو یہاں ختم نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان غیر معیاری کیمروں کی خریداری میں ایڈیشنل آئی جی سطح کے لوگ بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔
عدالت نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی وہ سندھ حکومت سے معلوم کریں کہ کراچی میں سی سی ٹی وی کیمروں کے لیے کتنے اور کب فنڈز پولیس کو فراہم کیے جائیں گے۔
اس موقع پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ پولیس کو اس رقم کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے پاس تکنیکی ماہرین دستیاب نہیں لہٰذا سندھ حکومت خود یہ کیمرے لگائے اور ان کی نگرانی کرے یا کسی نجی کمپنی کے حوالے کر دے۔
دو دن قبل صدر کے علاقے میں فوجی جوانوں کی ہلاکت کے وقت وہاں نصب کیمروں کے کام نہ کرنے کا معاملہ بھی عدالت میں زیرِ بحث آیا اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سوال کیا کہ دو روز قبل جہاں فوجی جوانوں کی’شہادت ہوئی‘ وہاں کیمرے کیوں کام نہیں کر رہے تھے؟
جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکریٹری کو مخاطب ہوکر کہا کہ ’آپ کے کیمروں پر شہد کی مکھیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔‘
چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ لگائے جانے والے کیمرے دو میگا پکسل کے تھے اور انھیں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ ’کراچی اور اسلام آباد کے لوگوں کے خون میں شاید فرق ہے، اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے پر اربوں روپے خرچ کیے گئے اور کراچی میں کیمروں کے لیے بھی فنڈز نہیں، کیا اسلام آباد کا بلڈ گروپ الگ اور اچھا والا ہے؟‘
چیف سیکریٹری سندھ نے انھیں بتایا کہ کراچی سیف سٹی منصوبے پر کام ہو رہا ہے اور محکمہ آئی ٹی اس پر کام کر رہا ہے۔
پولیس کو موبائل فون ڈیٹا تک رسائی اور جیو فینسنگ کی سہولت فراہم نہ کرنے پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اور کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد امن و امان کا قیام صوبائی معاملہ ہے اگر صوبے جیو فینسنگ اور موبائل ڈیٹا نظام رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر کیا اعتراض ہے کیونکہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا فراہم نہ ہونے کی وجہ سے تحقیقات میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ فوری نوعیت کا جو ڈیٹا مطلوب ہوتا ہے وہ 15 روز کے بعد فراہم کیا جاتا ہے، اس وقت تک ملزمان معلوم نہیں کہاں تک پہنچ چکے ہوتے ہیں؟ اس وجہ سے مقدمات کی تفتیش میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کے تحت جیو فینسنگ تک رسائی صرف ایک حساس ادارے کو حاصل ہے تاہم لوکیٹرز کی سہولت پولیس کو فراہم کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے کیمروں کی تنصیب، غیر معیاری کیمروں کی خریداری، جیو فینسنگ کے اختیارات کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی اور سماعت 11 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔