عمران خان کی زبان میں شرافت ختم ہوچکی ہے: مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد: مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تنقید کے جواب میں کہنا ہے کہ عمران خان کی زبان میں شرافت ختم ہو چکی ہے اور یہ زبان ان کے بونے پن کی نشانی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر کو انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے ان پر کی جانے والی تنقید پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
جے یو آئی کے امیر کا کہنا تھا کہ ایک آدمی کی شخصیت اور مقام کا جو فیصلہ کرنا ہوتا ہے، وہ اس کی گفتگو اور الفاظ کے استعمال کے پر ہوتا ہے اور جیسی زبان عمران خان نے استعمال کی ہے، اسے بڑا آدمی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ بونے پن کی نشانی ہے اور ان کی زبان میں شرافت ختم ہو چکی ہے۔
انہوں نے مقنا طیس کہنے پر عمران خان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان مقناطیس کا مطلب ہی نہیں سمجھتے، مقناطیس کسی طرف جاتا نہیں بلکہ دوسری چیزوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خود کو مولانا نہیں کہتا، بذات خود ان چیزوں کا قائل نہیں ہوں اور علماء کی محفل کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے اپنا تعین کرتا ہوں جب کہ پورے ملک کے علماء کرام کا اعتماد مجھے حاصل ہے، اس سے بڑی متاع کیا ہوسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال پر جے یو آئی امیر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی 5 سالہ کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور یہ نواز شریف پر تنقید کرتے رہے ہیں کہ ملک کا قرضہ بڑھا دیا لیکن انہوں نے بھی تو صوبے پر 300 ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ لاد دیا ہے اور وہ مرکز کے قرضوں کی بات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی نے حکومت کی ہے اور اس کے مقابلے میں بڑی قوت ایم ایم اے ہے لیکن باقی بھی جماعتیں ہیں جن کا اپنا ووٹ بینک ہے وہ بھی پی ٹی آئی کے مدمقابل لڑیں گی۔
حامد میر کے عمران خان کے وزیراعظم بننے کی صورت میں حکومت میں شامل ہونے سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے اشارہ دیا کہ بعض دفعہ ایسے حالات آجاتے ہیں تو آپ کو گنجائشیں رکھنی ہوں گی کیوں کہ ڈیڈلاک پیدا کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
’ہنک پارلیمنٹ‘ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ شاید ایسی کوئی صورتحال بنی تو ہم پھر مخلوط حکومت کی طرف جائیں کیوں کہ سیاسی جماعتیں ملکی حالات سے چشم پوشی نہیں کرسکتیں۔
مولانا فضل الرحمان نے 2008 میں متحدہ مجلس عمل کے اختلاف سے متعلق کہا کہ جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اتحاد میں شامل باقی جماعتیں الیکشن لڑنا چاہیے لیکن مسلم لیگ(ن)، محمود اچکزئی، عمران خان اور جماعت اسلام نے بائیکاٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف ملک میں واپس آئے تو بائیکاٹ والی جماعتیں ایک طرف ہوگئیں، میں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ مجھے نہیں لگ رہا کہ آپ بائیکاٹ کریں گے اور پھر وہی ہوا، انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور باقی 3 جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا جب کہ 2013 میں بھی ایم ایم اے بحال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔
فاٹا کے انضمام کے حوالے سے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان اختلافات پر ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے حوالے سے دونوں جماعتوں کا موقف مختلف ہے، ایم ایم اے کی تشکیل کے وقت بھی اختلاف تھے یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جب کہ ملک کے کئی مسائل کے حوالے سے ہمارا اتفاق موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فاٹا انضمام کے حوالے سے آئینی ترمیم ہوگئی ہے، ہم کبھی بھی انضام کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہاں کے لوگوں کی رائے کے مطابق حل چاہتے تھے لیکن یہ معاملہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان گزشتہ کئی سالوں سے مولانا فضل الرحمان کو جلسوں اور دیگر پارٹی تقریبات میں نامناسب القابات سے بلاتے ہیں۔