سندھ

عدالت کا ننھے عبداللہ کو نانی کے حوالے کرنے کا حکم

عبداللہ کے ماموں اور نانی کی جانب سے بچے کی حوالگی کے لئے فیملی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت ہوئی، دوران سماعت فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ننھے عبداللہ کو نانی کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا، عدالت نے حکم دیا کہ عبداللہ کے حوالے سے کسی بھی غیر ذمہ داری اور غفلت کی اطلاعات نہیں ملنی چاہئے جبکہ بچے کے والد چوہدری اقبال جب چاہے اپنے بیٹے سے مل سکتے ہیں۔

فیصلے کے بعد ننھے عبد اللہ والد چوہدری اقبال کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی اعتراض نہیں ،عبداللہ نانی کے پاس رہے۔

اس سے قبل بچے کے والد چوہدری اقبال نے متعدد بار بچے کو اپنے حوالے کرنے کے لئے درخواست بھی دائر کی تھی تاہم عدالت نے کیس کا فیصلہ ہونے تک بچے کی دیکھ بھال ایدھی فاؤنڈیشن کے سپرد کی تھی۔

یاد رہے کہ رواں برس مئی میں رضوان ایاز نامی شخص ایک چھوٹے بچے عبداللہ کو ایدھی سینٹر چھوڑ گیا تھا اور کہا کہ اس کو یہ بچہ دو دریا سے ملا ہے اس کے والدین گم ہوگئے ہیں جسے ایدھی فاؤنڈیشن نے مسنگ چائلڈ کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا اور اس کے والدین کی تلاش شروع کردی۔

رضوان وہی شخص تھا، جس نے عبداللہ اورا س کی والدہ کو دہلی کالونی میں ناصر منزل میں دوسری منزل پر فلیٹ کرائے پر دلوایا ،کرائے نامہ میں بھی رضوان نے اپنا اوورسیز والا شناختی کارڈ لکھوایا جبکہ رضوان نے ایدھی سینٹر میں غلط بیانی سے کام لیا کہ بچہ اس کو دو دریا سے ملا ہے۔

بعد ازاں اکتیس مئی کو دہلی کالونی کی گلی نمبر چار میں گھر سے ایک خاتون کی لاش ملی تھی، جیسے عبداللہ کی والدہ حلیمہ کے نام سے شناخت کیا گیا تھا، جس کے بعد رضوان کو کیس کا مرکزی ملزم قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا تھا اور اب تک اس کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔

عبداللہ کے ایدھی سینٹر میں موجودگی کی خبریں میڈیا پر نشر ہونے کے بعد عبدللہ کے والد اور سوتیلا بھائی اسے لینے کے لیے کراچی پہنچ گئے لیکن انتظامیہ نے بچہ دینے سے انکارکرتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کو عدالت سے ذریعے حاصل کرنا ہوگا۔

بلقیس ایدھی نے صحافیوں کو بتایا کہ ننھے عبداللہ کی خالہ نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بچے کو والد کے حوالے کیا گیا تو وہ اس کو جان سے مار ڈالے گا جبکہ عبد اللہ  کی نانی اور خالہ نے بھی ان سے رابطہ کیا تھا۔

چوہدری اقبال اور ان کے بیٹے انصار چوہدری نے ایدھی سینٹر میں میڈیا کے سامنے 4 سالہ عبداللہ سے محبت ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی تھی تاہم بچے نے ان کے جذبات کا جواب مثبت انداز میں نہیں دیا اور رونا شروع کردیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close