پاکستان میں غیر مسلم ووٹرز کی تعداد میں اضافہ، ہندو اور مسیحی سرفہرست
لاہور: پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہندو، مسیحی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔بھارتی میڈیا اس کی نظریں پاکستان سے ہٹتی ہی کہاں ہیں، وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہی رہتا ہے، ایسا ہی کچھ ملک میں رہنے والی ہندو برادری کے ساتھ کیا گیا اور ان کی بڑی تعداد میں بھارت نقل مکانی کا واویلا کیا گیا۔انہیں کیا معلوم پاکستان میں 5 برسوں میں غیر مسلم، بالخصوص ہندو ووٹروں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ اقلیتی ووٹروں کی تعداد 2018ء میں چھتیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق 2013 کے انتخابات کے موقع پر ہندو ووٹروں کی تعداد 14 لاکھ تھی جبکہ اس وقت رجسٹرڈ ووٹر 17 لاکھ 77 ہزار ہے۔ عمر کوٹ اور تھرپارکر کے اضلاع میں بالترتیب 49 اور 46 فیصد ہندو ووٹرز آباد ہیں۔پاکستان میں سب سے بڑی اقلیت ہندو ہی ہیں۔ ہندوں کے بعد مسیحی برادری غیر مسلم ووٹروں کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں مسیحی ووٹروں کی تعداد میں ہندو?ں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا۔2013ء سے پہلے مسیحی رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 12 لاکھ 30 ہزار تھی، اب ان کی تعداد 16 لاکھ 40 ہزار ہے جن میں سے 10 لاکھ مسیحی پنجاب میں اور 2 لاکھ سندھ میں آباد ہیں۔یہ اضافہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو زبردست حقوق مل رہے ہیں۔رجسٹریشن یہی ظاہر کرتی ہے کہ ہندو ناصرف پاکستان کے سماجی نظام کا حصہ ہیں بلکہ سیاسی نظام میں بھی فعال ہیں۔ہندو، ہندوستان میں مسلمانوں پر زندگی تلخ کئے ہوئے ہیں، مگر ان کی برادری یہاں کے سیاسی نظام کا فعال حصہ ہے۔ زیادہ تر ہندو اندرونِ سندھ کے اندر اور بیرون میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد 40 فیصد ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں سکھ ووٹرز برائے نام یعنی 8852 ہیں۔ زیادہ تر سکھ خیبر پختونخوا اور سندھ میں مقیم ہیں۔ فاٹا میں سکھوں کی رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 5934 اور پارسی ووٹروز کی تعداد 3650 سے بڑھ کر 4235 ہو گئی ہے۔بدھ مت کے ماننے والے بھی پاکستان کو اپنا مسکن سمجھتے ہیں۔ ان کے ووٹرز پانچ برسوں میں 1452 سے بڑھ کر 1884 ہو گئے ہیں۔ بہائی قوم آباد کے بھی ہزاروں ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔