اغواء ہونےوالے98فیصدبچوں سےمتعلق حیران کن انکشاف
لاہور: پنجاب کے مختلف علاقوں سے 2011 سے 2016 کے دوران اغواء یا لاپتہ ہونے والے تقریباً ساڑھے 6 ہزار میں سے 98 فیصد بچے گھر واپس آ چکے ہیں۔ جبکہ صرف 132 بچے ایسے ہیں جو اب بھی لاپتہ ہیں۔
پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس نے بچوں کے اغواء کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے پیش کردی۔پولیس کی جانب سے تیار کی جانے والی اس تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011 سے جولائی 2016 کے دوران 6 ہزار 793 بچے اغواء یا لاپتہ ہوئے۔ تاہم ان میں سے 98 فیصد بچے یعنی 6 ہزار 661 بچے یا تو واپس آگئے یا انہیں بازیاب کروا لیا گیا جب کہ 132 بچے اب بھی لاپتہ ہیں۔پنجاب میں بچوں کے اغواء کے واقعات پر تشکیل کردہ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے اراکین نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور ایدھی سینٹرز میں موجود بچوں سے انٹرویو بھی کیے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں سے انٹرویو کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کمیٹی کے اراکین نے قرار دیا کہ اغواء سے متعلق بچوں کے بیانات ان کی اپنی تخلیق کردہ کہانیاں ہیں اور ان بیانات کی سائنسی بنیادوں پر حقیقت جاننے کے لئے ان بچوں کا پولی گرافک ٹیسٹ کرایا جائے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کےاعضاء نکالےجانے سےمتعلق خبریں بھی محض افواہیں ہیں، کمیٹی کو ایک بھی ایسا کیس نہیں ملا جس میں کسی بچے کے اعضاء نکالے گئے ہوں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر بچے لاہورکے پسماندہ علاقوں سے گھروں سے بھاگ رہے ہیں، اب تک کے گمشدگی کے کیسز میں 98 فی صد بچے مل چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال صوبے سے 767 بچے لاپتہ یا اغواء ہوئے جن میں سے 722کو تلاش کرلیا گیا ہے جبکہ لاہور سے لاپتہ ہونے والے 260 میں سے 207 بچے خود واپس آگئے، 29 کو بازیاب کرالیا گیا جبکہ 24 تاحال لاپتہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت صوبے بھر میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے 7اسٹیشنز میں 167 لاوارث بچے موجود ہیں جن کے ورثاء کو تلاش کیا جارہا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 16-2015 میں گمشدگی کے 2006 مقدمات درج کرائے گئے جن میں سے 1054 مقدمات واپس لے لئے گئے جبکہ 1563 افراد کو حراست میں لیا گیا، 668 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا، 784 ضمانت پر رہا ہوگئے اور صرف 6 ملزمان کو سزائیں دی گئیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2016 میں جولائی کے مہینے تک پنجاب میں اغواء برائے تاوان کے 4 واقعات سامنے آئے اور ان چاروں بچوں کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔
پنجاب میں اغواء ہونے والے بچوں کی بازیابی حوالے سے اہم علاقوں کی بھی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ مزاروں، ریلوے اسٹیشنز، عوامی پارکس اور بس اسٹینڈز وغیرہ پر ان بچوں کی موجودگی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو بتایا گیا کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں خصوصی ٹاسک فورس قائم کردی گئی ہے جو تمام بڑے شہروں میں ان مقامات کی نگرانی اور چھاپہ مار کارروائیاں کریں گے جہاں سے بچوں کے ملنے کے زیادہ امکانات ہوں گے۔
اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ پولیس پیشہ ور گداگروں کے خلاف بھی آپریشن کرے گی اور لاپتہ بچوں کی تصاویر پولیس کی ویب سائٹ پر بھی ڈالی جائیں گی۔
پولیس کا انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اس حوالے سے عوامی آگاہی کی مہم بھی شروع کرے گی۔
واضح رہے کہ پنجاب خاص طور پر لاہور میں بچوں کی بڑے پیمانے پر گمشدگی نے والدین کو خوف زدہ کررکھا ہے، اس سلسلے میں اہل خانہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اغواء کے یہ کیسز پولیس کے لیے بس کمانے کا موقع ہوتے ہیں اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں یا آپ بااثر نہیں تو اپنے پیاروں کو بھول جائیں۔بیشتر خواتین نے بتایا کہ اسکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کے دوران ان کے بچے قریبی ٹیوشن مراکز میں جاتے تھے لیکن اغواء کے خوف سے انہوں نے بچوں کو باہر نکلنے سے روک دیا ہے۔
قبل ازیں کیپیٹل سٹی پولیس افسر کیپٹن ریٹائرڈ امین نے دعویٰ کیا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ 10 سے 15 سال کی عمر کے بعد بیشتر بچے مختلف سماجی وجوہات جیسے گھر میں سہولیات کی کمی، والدین کے رویے، خراب مالی حالات، والدین، اساتذہ کے غصے یا تعلیم میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا تھا کہ پولیس حقائق کو چھپا رہی ہے اور بچوں کے اغوا کے کیسز کو درج نہیں کررہی۔
میاں محمود الرشید نے بتایا تھا کہ انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ایک تحریک بھی پیش کررکھی ہے حکومت کو اراکین کے سامنے جواب دینا ہوگا اور ان کی شکایات کو حل کرنا ہوگا۔