پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے سربراہ سے توقعات
پاکستان کرکٹ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بہت سے حیران کن واقعات نظر آتے ہیں۔ کرکٹ ایک روایتی کھیل ہے، صدیاں گزر جانے کے باوجود ان روایات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کھیل میں روایت شکنی کی بالکل اجازت نہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ انگریزوں کا کھیل ہے اور انگریز جب برصغیر میں تجارت کی غرض سے آئے تو اپنے ساتھ یہ کھیل بھی لے آئے پہلے وہ آسام کے باغات میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے پھر انہوں نے مقامی گارڈز اور خادموں کو شامل کرلیا۔ اس طرح یہ کھیل مقامی لوگوں تک پہنچا اور چائے کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی شہریوں میں مقبول ہوگئی، ایسی مقبول کہ انگریز اس کھیل پر اپنی اجارہ داری قائم نہ رکھ سکے۔
انگریزوں نے اس کھیل کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے انٹرنیشل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) بنا ڈالی۔ کرکٹ پرتسلط برقراررکھنے کے لیے اس ادارے کا ہیڈ آفس لندن میں قائم کیا گیا۔ وقت گزرتا گیا اور کرکٹ دنیا بھر میں مقبول ہوتی گئی لیکن آئی سی سی کو لندن تک محدود رکھا گیا۔
جب احسان مانی ( پی سی بی کے موجودہ چیئرمین) آئی سی سی میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کے فائنانس کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے تو انہوں نے آئی سی سی کے مالی مفاد کے پیش نظر مرکزی دفتردبئی منتقل کردیا اور بچارے گورے کچھ نہ کرسکے۔
یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کرکٹ کو نہایت باریک بینی سے سمجھنے والے احسان مانی کو مشورے کےلیے کسی تھنک ٹینک کی کیا ضرورت پیش آ گئی۔ مانی صاحب خود چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں اور وہ ہرمعاملے کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور جانچنے کے ماہر ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کا انعقاد ہے۔ اس مسئلے کو وہ خود بہت بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پھرسابق کھلاڑیوں کے مشورے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ اس معاملے کے حل کے لیے سابق کھلاڑیوں سے مشورے کرنے کے بجائے بین الاقوامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ویسے تو پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے بہت کام ہوتا رہا ہے اور تقریبا تمام اسٹارکرکٹرز کسی نہ کسی حیثیت میں بورڈ کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کسی ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا تو کوئی ٹیم کا کوچ بن گیا، کسی کو ٹیم کا مینجر بنایا گیا تو کسی کو مینٹور۔ اس کے باوجود اب بھی کرکٹ بورڈ میں کئی شعبے خالی پڑے ہیں۔
کیا کریں کرکٹ ہی بہت ہورہی ہے جیسے نیشنل کرکٹ ، انٹرنیشنل کرکٹ ، ریجنل کرکٹ، ڈیپارٹمنٹل کرکٹ، ویمنز کرکٹ، انڈر 19 کرکٹ، ویٹرنز کرکٹ، بلائنڈ کرکٹ اور ڈس ایبل کرکٹ۔ اس کے علاوہ اسٹریٹ کرکٹ، رمضان کرکٹ، یو م آزادی کرکٹ، وغیرہ وغیرہ۔ اس تمام کرکٹ کی ذمہ داری کرکٹ بورڈ کے سرپر ہے اور ہر اچھے برے کام کی زمہ داری چیئرمین کرکٹ پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان میں مختلف کیٹیگریز کی کرکٹ کے علاوہ امدادی کرکٹ میچ بھی کروائے جاتے ہیں جس میں سابق انٹرنیشنل کرکٹر مصروف نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں ہمارے ہاں سگریٹ کی مقبولیت کے لئے کرکٹ کو استعمال کیا جاتا تھا اور سگریٹ نہ پینے والے کرکٹرز بھی اشتہاروں میں سگریٹ پیتے دکھائی دیتے تھے۔ جب یہ پتہ چلا کہ سگریٹ پینے سے کینسر جیسا موذی مرض ہو سکتا ہے تو کینسر اسپتال بنانے کےلئے کرکٹ کھیلی جانے لگی۔
اس کے علاوہ امن و امان کے لئے کرکٹ، زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے کرکٹ، ماہ رمضان میں 20-20 اور 10-10 اوورز کی کرکٹ شروع ہوگئی۔ رمضان کرکٹ کا یہ فائدہ ضرور ہو کہ جب 92 کا ورلڈ کپ اور چیمینز ٹرافی رمضان کے دوران منقعد کروائے گئے تو کھلاڑی اس کے لیے پہلے سے تیار تھے اور یہ دونوں عالمی ٹرافیاں پاکستان لے آئے۔
احسان مانی چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہونے کے ناطے مالی امور کے ماہر ہیں۔ آئی سی سی میں خدمات انجام دینے کے دوران انہوں نے ادارے کو مالی معاملات میں بہتری اورآمدنی میں اضافے کےلئے مختلف تجاویز بھی دیں۔ اب وہ سربراہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی حیثیت سے اس ادارے کے مالی امور بہتر بنانے کے لئے یقیناً اقدامات کریں گے۔ ابھی شاید بورڈ میں مختلف عہدوں پر فائز سابق کرکٹرز اورٹیم کے کھلاڑیوں کے اخلاقیات اور کرکٹ کے ایکشن درست کرانے میں مصروف ہیں۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو اس طرح کی کوششوں میں کھلاڑی کا ایکشن درست ہوتا تو اس کا کردار مشکوک ہوجاتا کیرکٹر پر توجہ دیں تو کھیل خراب ہو جاتا ہے ۔ ان سب چکروں میں بورڈ کی مالی مشکلات دورکرنے کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی ۔ تاہم آج کرکٹ بورڈ کے مالی حالات بہت بہتر ہیں اور ان میں مزید بہتری کی گنجائش بھی خوب ہے۔ مانی صاحب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مالی معاملات میں شفافیت لانے کے لیے درست اقدامات کریں گے۔
پاکستان ٹیم جو ماضی میں دنیا کی نمبر ون ٹیم رہی ہے ،عمران کے وزیر اعظم اور مانی کے بورڈ سربراہ بننے کے بعد ایک بار پھر بہت جلد نمبر ون ٹیم بن جائےگی۔