پی ٹی آئی اندرونی طور پر 5 گروپس میں تقسیم ہے، جاوید ہاشمی
ملتان: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 5 گروپس میں تقسیم ہے تاہم انہوں نے انگروپس کے حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
جاوید ہاشمی نے کہا کہ پی ٹی آئی میں اختلافات چند ماہ میں واضح ہوجائیں گے اور اس وقت چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان پارٹی کے معاملات سنبھال نہیں پائیں گے۔
جاوید ہاشمی نے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی تھی لیکن ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف انقلابی رہنما ہیں جنہوں نے کبھی کسی چیز کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
نواز شریف کی اڈیالہ جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد خاموشی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کلثوم نواز کے چہلم کے بعد نواز شریف تمام حقائق سے پردہ اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے لیکن اگر عمران خان کی حکومت نے ڈیڑھ سال بھی پورا کیا تو یہ اس کی کامیابی ہوگی، پی ٹی آئی نے حکومت میں آکر عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کیے تھے لیکن حکومت کے ابتدائی 2 ماہ میں مہنگائی کا سیلاب لا چکے ہیں۔
جاوید ہاشمی نے بلاتفریق احتساب کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر ایک وزیراعظم کے خلاف ٹرائل ہوسکتا ہے تو جنرلز سمیت دیگر کو بھی احتساب کا سامنا کرنا چاہیے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نیب ہر کسی کا احتساب نہیں کرپایا، ملک کے 4 سابق آرمی چیف ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مشرف دبئی میں کیا کررہے ہیں’، جرنیلوں کے اثاثوں کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے نیب کے ساتھ ساتھ عدالتوں کے فیصلوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ عمران خان کی بنی گالا کی رہائش گاہ غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی لیکن عدالت کا فیصلہ مختلف آیا۔
ماضی میں سرائیکی موومنٹ کی قیادت کرنے والے جاوید ہاشمی نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت اگر شاہ محمود قریشی کو وزیراعلیٰ پنجاب بھی بناتی تب بھی جنوبی پنجاب صوبے کی بنیاد نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) شجاع پاشا اور جنرل ظہیرالاسلام 2014 کے اسلام آباد دھرنے کے پیچھے تھے۔
جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ عمران خان 2014 میں اپنے بیٹوں سے ملاقات کی آڑ میں لندن گئے تھے لیکن درحقیقت وہ خفیہ ہاتھوں کی ہدایت پر وہاں طاہرالقادری سے ملنے گئے تھے اور عمران خان نے مجھے بتایا تھا کہ دھرنے کے شرکا اگر پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ بھی کریں تو مارشل لا نہیں لگے گا اور اس کے نتیجے میں صرف انتخابات ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں عمران خان وزیراعظم بننے کے لیے بے تاب تھے۔