قانون سازی تک موبائل بیلنس پر ٹیکس کٹوتی نہ کرنے کا حکم
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے موبائل فون ٹیکسز کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت سے کہا کہ پنجاب حکومت کو ٹیکسز کی کٹوتی روکنے سے 2 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں قانون کو دیکھنا ہے، مفت کا سروس ٹیکس لیا جا رہا ہے، پنجاب حکومت کا موبائل سروس پر سروس ٹیکس لینے کا جواز نہیں، سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت کس چیز کا سروس پرووائیڈر ہے، کیا روٹی کھانے پر بھی سروس ٹیکس لگے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صارف کو سو روپے والے کارڈ پر کیا ملتا ہے،25 روپے وفاقی اور باقی پنجاب حکومت لے جاتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ موبائل فون سروس پر ٹیکسوں کی کٹوتی کا میکنزم بنانے کے لیے وقت چاہیے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اگر وقت چاہیے تو قانون سازی تک ٹیکس کٹوتی معطلی کا فیصلہ موجود رہے گا، غریب مزدوروں سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، غریب صارفین پر ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے منصوبوں میں کرپشن کو ختم کریں، کشتیوں پر پیسہ بیرون ملک نہ جانے دیں، منصوبوں میں کمیشن پر کٹ لگائیں، جب کرپشن روک لیں گے تو دیکھیں گے موبائل صارفین پر ٹیکس لگانا ہے یا نہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ قانون سازی ہونے تک موبائل فون پر ٹیکس کٹوتی نہیں ہوگی، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔