ٹیکنالوجی ریویو کی ’35 انڈر 35‘ فہرست میں دو پاکستانی خواتین بھی شامل
کیلیفورنیا: میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نمائندہ جریدے ’’ٹیکنالوجی ریویو‘‘ نے 35 سال سے کم عمر 35 باصلاحیت افراد کی فہرست میں دو پاکستانی خواتین کو بھی شامل کرلیا۔
واضح رہے کہ امریکا میں واقع میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کا نمائندہ جریدہ ٹیکنالوجی ریویو 1899 سے شائع ہورہا ہے جس نے پچھلے کئی سال سے ’’فوربس 500‘‘ کی طرز پر سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں جدید اختراعات و ایجادات کے حوالے سے بہترین منصوبوں، اداروں اور شخصیات کو نمایاں کرنے کےلیے مختلف سالانہ فہرستیں شائع کرنا شروع کی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک سالانہ فہرست 35 سال سے کم عمر کے ایسے 35 افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہوں نے کوئی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ اسی مناسبت سے یہ فہرست ’’35 انڈر 35‘‘ بھی کہلاتی ہے۔
اس سال ٹیکنالوجی ریویو کی ’’35 انڈر 35‘‘ فہرست میں دو پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں جو پاکستان کےلیے کسی اہم اعزاز سے کم بات نہیں۔
حرا حسین
ان میں سے پہلی خاتون 28 سالہ حرا حسین ہیں جنہیں ٹیکنالوجی اور سماجی اختراع کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ حرا حسین نے کثیر لسانی کراؤڈ سورس پلیٹ فارم بنایا ہے جس کے تحت گھریلو تشدد اور جبر کی شکار خواتین کسی وکیل کے بغیر بھی اپنا مقدمہ درج کروا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی نفسیاتی تشدد کو بھی آشکار کیا جاسکتا ہے۔
یہ کام انہوں نے برطانیہ میں رہتے ہوئے کیا ہے جہاں پاکستان اور دیگر ممالک سے آنے والی خواتین پر شادی کے بعد جبر کیا جاتا ہے۔ یہ خواتین طلاق، خلع، بچوں کی کفالت اور سیاسی پناہ جیسے پیچیدہ قوانین سے ناواقف ہوتی ہیں اور بسا اوقات معلومات ہونے کے باوجود بھی اس عمل سے دور اور خوف زدہ رہتی ہیں۔
2013 میں حرا نے چین نامی اوپن سورس تنظیم بنائی اور آج اس سے وابستہ 400 رضا کاروں میں 70 فیصد ایسی خواتین شامل ہیں جو خود تشدد اور گھریلو زیادتیوں سے گزر چکی ہیں۔ اس ضمن میں کراؤڈ سورس پلیٹ فارم کے ذریعے نفسیاتی، سماجی اور قانونی پیچیدگیوں پر گہری تحقیق کی گئی ہے۔
مثلاً اگر کوئی بھارتی خاتون گھریلو جبر کا نشانہ بنتی ہے اور اس مصیبت سے چھٹکارا چاہتی ہے تو اس کی مدد کےلیے بھارتی قوانین کی روشنی میں رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر کئی ممالک کی خواتین اپنے اپنے ممالک کے قانون کو دیکھتے ہوئے اپنے حق سے آگاہ رہتی ہیں اور اس صورتحال سے باہر آسکتی ہیں۔
حال ہی میں حرا حسین نے اپنے پلیٹ فارم پر ایک چیٹ بوٹ بھی متعارف کروایا ہے جو کسی بھی خاتون کی آن لائن مدد کرتا ہے اور اس کا مسئلہ دیکھ کر درست مشورہ دیتا ہے۔ دوسری جانب ویب سائٹ پر چند کلکس سے آسان معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
شہربانو
31 سالہ شہربانو نے ریاست کی جانب سے سنسرشپ کے خلاف عملی قدم اٹھایا ہے اور اس عمل کو منظم انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی شہربانو اس وقت یونیورسٹی کالج لندن میں زیرِ تعلیم ہیں۔ جب 2012 میں پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی لگائی گئی تو شہربانو نے اپنے اس کام کا آغاز کیا۔ اگرچہ لوگ اس پر چپ رہے لیکن شہربانو نے اس پر تحقیق کرتے ہوئے ریاستی سنسرشپ کو شکست دینے کی ٹھانی۔
انہوں نے تین سال تک پاکستان میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں (آئی ایس پیز) کا ڈیٹا جمع کیا۔ اسے چینی گریٹ فائر وال پر بھی آزمایا گیا جسے چین میں انٹرنیٹ سنسرشپ کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران انہوں نے غور کیا کہ بعض بنیادی تکنیکی پابندیوں کی وجہ سے انٹرنیٹ سنسرشپ کی جاتی ہے۔ خاص ویب سائٹ کو روکنے والے سنسرشپ ماڈیول ویب سائٹ سرور اور صارف کے براؤزر کے درمیان کام کرتے ہیں۔
ان باتوں کو سمجھنے کے بعد شہربانو نے انکرپشن چھیڑے بغیر پابندیوں کو عبور کرنے کا طریقہ وضع کیا۔ مثلاً اس میں غلط اسپیلنگ یا کسی اور وجہ سے ریکویسٹ بھیجی گئی لیکن اسی کے ساتھ اصل ویب سائٹ کی ریکویسٹ بھی شامل ہوگئی۔
شہربانو نے یہ بھی بتایا کہ بے نام صارفین (anonymous users) اور ٹی او آر (The Onion Router) جیسے سیکیورٹی سافٹ ویئر اور ایڈ بلاکرز کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح انٹرنیٹ کے استعمال کو بد سے بدتر بنادیتے ہیں۔
اسی کام کو آگے بڑھاتے ہوئے شہربانو نے کئی کمپیوٹر ماہرین کے ساتھ کام کرکے آن لائن رابطوں کی آزادی کو یقینی بنانے پر کام شروع کردیا۔ اپنی جامعہ میں پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق میں اب وہ شفاف بلاک چین جیسے نظام پر کام کررہی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے چین اسپیس جیسے اسمارٹ کنٹریکٹ پلیٹ فارم بنائے ہیں۔ اس کی مدد سے آن لائن سیکیورٹی بڑھائی جاسکتی ہے لیکن بہت شفاف انداز میں۔