لاہور: تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور حکومت کے مابین مذاکرات طے پاگئے جس کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت نے ملک گیر احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
معاہدے کے مطابق آسیہ بی بی کا نام فوری طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی عمل میں لائے جائے گی۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان کامیاب مذاکرات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف ملک گیر دھرنے جبکہ حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین گزشتہ 2 روز سے مذاکرات بھی جاری تھے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے مابین معاہدہ طے پاگیا ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس پنجاب میں منعقد مذاکراتی اجلاس صبح سے جاری تھا۔
معاہدے پر وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، پنجاب کے وزیرقانون راجا بشارت، سرپرست اعلیٰ تحریک لیبک پیر محمد افضل قادری اور مرکزی ناظم اعلیٰ تحریک لیبک محمد وحید نور کے دستخط موجود ہیں۔
علاوہ ازیں فریقین کے مابین 5 نکات پر مشتمل معاہدہ طے پاگیا، جس کے تحت وفاقی حکومت آسیہ بی بی کے خلاف دائر اپیل پر اعتراض نہیں اٹھائے گی۔
معاہدے کی رو سے حکومت آسیہ بی بی کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی عمل میں لائے گی۔
اگر تحریک لبیک آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف مزید شہادتیں لاتی ہے تو اسے قانونی چارہ جوئی میں شامل کیا جائےگا۔
معاہدے کے مطابق 30 اکتوبر کے بعد احتجاج میں گرفتار ہونے والے تمام افرادکو رہا کیا جائے گا۔
تحریک لیبک نے عوام کو درپیش پریشانی اور مشکلات پر معذرت کی تاہم دھرنے اور احتجاج کے دوران نجی یا سرکاری املاک کے نقصان کی تلافی سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔
بعد ازاں ٹی ایل پی کی قیادت نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مندرجات پیش کیے اور ملک گیر جاری دھرنوں کے اختتام کا اعلان کیا۔
خیال رہے کہ ریڈیو پاکستان پر شائع رپورٹ کے میں ای سی ایل کا ذکر موجود نہیں تاہم ڈان کے نمائندے کے مطابق معاہدے میں ای سی ایل میں آسیہ بی بی کا نام ڈالنے کا تذکرہ موجود ہے۔
اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ معاہدے میں فوج کے کسی افسر کے دستخط نہیں ہیں جبکہ گزشتہ سال نومبر میں حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین فیض آباد دھرنے کا اختتام ایک معاہدے کے ذریعے ہوا تھا جس کے تحت وفاقی وزیر قانون نے استعفیٰ دیا تھا اور معاہدے میں فوج کے ایک جنرل کے بھی دستخط تھے۔