بلاگ: راجہ کامران
وزیرِاعظم پاکستان عمران خان چین کے 5 روزہ دورے پر بیجنگ میں موجود ہیں۔ اعلیٰ چینی قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ وہ چین میں ہونے والی ترقی کے پس پردہ مضمرات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے متعدد چینی تھنک ٹینکس کا دورہ بھی کریں گے۔
عمران خان کا دورہءِ چین پاکستان کے لیے سفارتی، اندرونی سیاست، معیشت اور انسانی ترقی جیسے اہم معملات کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سب سے اہم معاملہ چین کے ساتھ تجارت کے توازن کو بہتر بنانے پر بات کی جائے گی۔
وزیرِاعظم پاکستان چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں چین کی پہلی درآمدی نمائش چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کی افتتاحی تقریب میں شرکت بھی کریں گے۔ اس نمائش میں چین نے پاکستان کو مہمانِ خصوصی (Guest of Honor) کا درجہ دیا ہے۔
چین دنیا میں ایک نرالی ہی قوم ہے۔ ساری دنیا اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں مگر چین اپنی درآمدی صنعت کو فروغ دینے کے لیے اور دیگر ملکوں کو اپنی مصنوعات چین میں فروخت کرنے پر قائل کرنے کے لیے نمائش منعقد کررہا ہے۔ یہ چین کی پہلی درآمدی نمائش ہے۔
چین تیزی سے ترقی کرتے ہوئی دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے اور دنیا میں ایندھن کا دوسرا بڑا خریداری بھی بن گیا ہے۔ افریقا میں جہاں مغربی ملکوں نے سازشوں کے تحت قبائلی جھگڑوں کی ذریعے خانہ جنگی برپا کر رکھی ہے، وہاں چین نے انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
چین اپنی فوجی قوت کے بجائے اپنی کاروباری صلاحیت کے ذریعے افریقی اور ایشیائی ملکوں میں معاشی ترقی کے ثمرات کو بانٹ رہا ہے مگر چین کے خلاف امریکا اور مغربی ممالک بھی اسی تیزی سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ چین کے بڑھتے ہوئے برآمدی حجم کے خلاف مغربی ملکوں کا پروپیگنڈا جاری ہے، تو دوسری طرف امریکا نے چین پر تجارتی پابندیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو چین کے خلاف تجارتی عدم توازن کا واویلا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ چین سالانہ 2260 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات اور خدمات دنیا بھر کو فروخت کرتا ہے جبکہ دنیا بھر سے 1840 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔ امریکا چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی خسارہ سال 2016ء میں 385 ارب ڈالر تھا۔
اگر پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کی بات کی جائے تو صورتحال بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ پاکستان چین کو سالانہ 1 ارب 38 کروڑ ڈالر مالیت کی برآمدات کرتا ہے جبکہ چین سے سالانہ 9 ارب 70 کروڑ ڈالر مالیت کی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ اس طرح چین کے ساتھ تجارت میں سالانہ 8 ارب 32 کروڑ ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔
اس نمائش کے انعقاد کا اعلان چینی صدر شی جن پنگ نے 2017ء کے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں کیا تھا۔ اس نمائش کا مقصد دیگر ملکوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ چین ان کے ساتھ طویل مدتی تجارتی شراکت کا خواہاں ہے اور چین فوجی نہیں بلکہ اقتصادی طاقت کے ذریعے مغرب کے استحصال کی شکار اقوام کو عالمی ترقی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ اپنے خلوص کو اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرنے کے لیے چینی حکام نے اس نمائش کو منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نمائش میں 100 ملکوں اور اقتصادی خطوں کے کاروباری افراد شرکت کر رہے ہیں۔ چین نے ڈیڑھ لاکھ مقامی خریداروں کو بھی مدعو کیا ہے۔
چین کی مقامی معیشت میں طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے اور تقریباً 6 سال میں مصنوعات اور خدمات کی طلب دگنی ہوگئی ہے۔ سال 2011ء میں چین کی ریٹیل سیلز کا حجم 2898 ارب ڈالر تھا جو سال 2016ء میں بڑھ کر 5 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔
شنگھائی کے ایکسپو سینٹر میں دوست ملکوں کو اپنا پویلین بنانے کے لیے مفت جگہ فراہم کی گئی ہے۔ نمائش میں شامل کمپنیوں کو 2 زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خدمات کا زمرہ الگ ہوگا جس میں سیاحت، ایمرجنگ ٹیکنالوجیز، ثقافت، تعلیم، تخلیقی ڈیزائننگ اور آؤٹ سورسنگ شامل ہیں جبکہ مصنوعات کا زمرہ الگ ہوگا جہاں جدید آلات، الیکٹرانک مصنوعات، آٹو موبائل، ملبوسات، عام استعمال کی اشیاء، اشیائے خور و نوش، زرعی پیداوار اور طبی آلات کی نمائش کی جائے گی۔
اس ایکسپو کے لیے تیار پاکستان میں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان (ٹڈاپ) اور بینک آف چائنا کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اس نمائش کے حوالے سے ٹڈاپ کے حکام سے بات چیت کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی مؤقف نہ دیا۔ ٹڈاپ نے 25 تاجروں اور صنعت کاروں کی ایک فہرست تیار کی ہے۔ جس میں پاکستان سے اسٹالز لگانے والی کمپنیوں میں اسٹیپل فوڈز، غریب سنز، رجبی انڈسٹریز، ڈائنامک انجینیئرنگ، حب لیدر، سندھ مینگو گروورز ایسوسی ایشن، اے کے مارکیٹنگ، آئی بی ایل گروپ، میسکے اینڈ فیمٹی ٹریڈنگ، ابوبکر ٹیری، افروز ٹیکسٹائل، صنعاء مسکتیا، لکی سیمنٹ، فیروز انٹرنیشنل، پاکستان لیدر گارمنٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور سکیب جیمز شامل ہیں۔
بینک آف چائنا نے نمائش میں شرکت کے خواہش مند تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ قریبی تعلق کو قائم کیا ہے۔ اس نمائش میں تاجروں کی کاروباری ملاقاتوں کے لیے ایک خصوصی پورٹل تیار کیا گیا تھا۔ جس پر ہر شریک سے پوچھا گیا تھا کہ وہ کس قسم کے کاروبار میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کس شعبے کی چینی کمپنی یا حکام سے ملنا چاہیں گے۔
پاکستانی صنعت کار اور تاجر چین کے ساتھ تجارتی خسارے کا بہت شور مچاتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ پاکستانی تاجر اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے مگر نئی حکومت کی جانب سے جہاں بچت کا رجحان بڑھ گیا ہے، وہیں وزیرِاعظم کے ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں کے مفت سیر سپاٹے بھی ختم ہوگئے ہیں۔ اس درآمدی نمائش میں ٹڈاپ نے شرکاء کو مفت سفر کے بجائے سفری ٹکٹ اور رہائش کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد دن رات برآمدات بڑھانے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے متعدد افراد نے اس سفر سے معذرت کرلی ہے۔
فواد اعجاز پاکستان سے چمڑے کی مصنوعات کے بڑے برآمد کنندہ ہیں۔ عیدِ قربان سے قبل کھالوں کی قیمت کے حوالے سے اسٹوری کے سلسلے میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے وزیرِاعظم کے ساتھ اکتوبر میں دورہءِ چین کی خوش خبری سنائی تھی۔ دورہءِ چین قریب پہنچا تو فواد اعجاز صاحب سے رابطہ کیا مگر ان کے خیالات پہلے سے مختلف تھے۔
فواد اعجاز کا اب مؤقف تھا کہ وہ اس دورے میں نہیں جا رہے۔ ان کے مطابق 6 ماہ پہلے جب نام مانگا گیا تھا تو بتایا گیا کہ وزیرِاعظم کے وفد کا حصہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سے پہلے بھی وزیرِاعظم کے ساتھ سفر کرچکے ہیں جس میں بہت اچھا پروٹوکول ملتا تھا مگر اب پتہ لگا ہے کہ یہ تو وزارتِ تجارت کا وفد ہے۔ اب شرائط بھی تبدیل ہوگئی ہیں اور سفری اخراجات اور رہائش کا آدھا خرچہ حکومت دے گی، جبکہ ویزہ بھی خود لگوانا ہوگا۔
اعجاز کھوکھر سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسپورٹس ویئر کے بڑے برآمد کنندہ ہیں۔ ان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ وہ بھی نہیں جارہے ہیں کیونکہ 20 ممالک کے 2800 اسٹالز میں پاکستانی مصنوعات کو کامیابی ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
وفد کی فہرست میں چمڑے کی صنعت سے وابستہ گلزار فیروز کا بھی نام موجود ہے۔ وہ بھی درآمدی نمائش میں جانے کے حوالے سے ڈانواں ڈول ہی نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بزنس ٹو بزنس ملاقاتوں کے حوالے سے انہوں نے چینی حکام کو کہا ہے مگر کوئی خاطر خواہ اور حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا۔
مسعود نقی ڈینم ٹیکسٹائل سے وابستہ ہیں اور کورنگی ایسوسی ایشن برائے تجارت و صنعت کے سابق چیئرمین بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ درآمدی نمائش میں ایک بڑا اسٹال لگا رہے ہیں اور اس کے ساتھ وہ وزیرِاعظم کے وفد کا بھی حصہ ہوں گے۔ بینک آف چائنا نے پاکستان میں درآمدی نمائش کے حوالے سے بہت فعال کردار ادا کیا ہے اور 10 کے قریب خریداروں سے ان کی میٹنگرز کا وقت طے ہوگیا ہے جبکہ بینک آف چائنا والے مترجم بھی فراہم کریں گے۔
مسعود نقی کا کہنا تھا کہ کب تک امریکا اور یورپ کے پیچھے چلتے رہے گے، وہاں تجارت سے زیادہ سیاست ہے۔ مغرب میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی لابی بھی اپنی سیاست کر رہی ہے، اس وجہ سے پاکستان مشرقِ وسطیٰ کا بیک یارڈ بن کر رہ گیا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ کرنسی بھی آزاد ہے۔ چین میں یورپی امریکا جیسی سیاست کا بھی سامنا نہیں ہے۔ چین ایک اچھی ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے جہاں لوگوں کے پاس دولت بھی ہے اور نئی اشیاء کی طلب بھی ہے۔
چین نہ صرف بڑے پیمانے پر مصنوعات اور خدمات کا خریدار ہے بلکہ وہ اپنی صنعتوں کو کم ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل کر رہا ہے۔ کیونکہ چین اب ہائی ٹیک صنعت کی جانب جارہا ہے، اس لیے صرف ویتنام میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی چینی صنعت منتقل ہوئی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بھی چین نے اپنی صنعتوں کو منتقل کیا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک چینی صنعت کی منتقلی نہیں ہوئی ہے۔ اس درآمدی نمائش میں چین کی گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کی صنعت کے منتقل کرنے کے حوالے سے بھی ابتدائی بات چیت کی جائے گی۔
چین کی جانب سے درآمدی نمائش کا یہ قدم دنیا بھر میں چین کی بطور ایک سنجیدہ، مخلص اور طویل مدتی شراکت دار کی حیثیت کو اجاگر کرے گا۔ یہ نمائش پاکستان کے لیے بھی ایک موقع ہے جس کے ذریعے پاکستان چینی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کو متعارف کروا سکے گا اور اس طرح چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو قابو میں کرنے کے عمل کا آغاز کرسکے گا۔
مگر اس حوالے سے پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کو اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگی اور گھبرا کر پیچھے ہٹنے کے بجائے اپنی مصنوعات کو اس قدر معیاری بنانا ہوگا کہ وہ دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں۔