بینکوں سے ڈیٹا چوری کا معاملہ: ایف آئی اے سائبر کرائم ٹیم کراچی کا دورہ کرے گی
کراچی: بینکوں سے ڈیٹا چوری ہونے کے معاملے پر ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیم کراچی کا دورہ کرے گی۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کی جس میں بینکوں سے ڈیٹا چوری ہونے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ شعیب احمد بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیم آئندہ ہفتے کراچی کا دورہ کرے گی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ ایف آئی اے کی سائبر کرائم ٹیم اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے نمائندوں سے ملاقات کرے گی۔
سائبر سیکیورٹی فورم
دوسری جانب پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن نے بینکس سائبر سیکورٹی کا علیحدہ فورم بنا لیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی طرح ایسوسی ایشن نے بھی صرف ایک بینک کی سیکیورٹی ہیک ہونے پر زور دیا البتہ یہ ایسوسی ایشن نے مان لیا کہ جعسازی سے حاصل بینک کارڈ ڈیٹا یا گمشدہ کارڈ کے ڈیٹا سے ڈپلی کیٹ کاپی بن سکتی ہے اور اس سے فراڈ ٹرانزیکشنز کی جاسکتی ہیں۔
یہ معاملہ کب شروع ہوا؟
اکتوبر کے وسط میں پاکستان میں بینک صارفین کو ان کے اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی کے نوٹیفکیشن موصول ہونا شروع ہوئے۔ تاہم ، بینک اسلامی کو 27 اکتوبر کی صبح 26 لاکھ روپے کی غیرمعمولی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا اور اس نے بین الاقوامی ادائیگیوں کا سسٹم بند کر دیا۔
اس کے بعد دیگر بینکوں نے بھی سیکیورٹی الرٹ جاری کیا اور صارفین کے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادائیگیوں کو مکمل طور پر یا جزوہ طور پر بند کر دیا یا ان کی آن لائن اور بین الاقوامی ادائیگیوں کو بلاک کر دیا۔
کون کون سے بینکوں کا ڈیٹا چوری ہوا؟
پاک سرٹ کی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق 26 اکتوبر 2018 کو ڈارک ویب پر 9 ہزار ڈیبٹ کارڈز کا ڈیٹا ڈالا گیا جن میں سے اکثریت کا تعلق پاکستانی بینکوں سے تھا۔
اگرچہ ابتدائی طور پر صرف بینک اسلامی کا نام سامنے آیا مگر ڈارک ویب پر موجود ڈیٹا میں دیگر 8 پاکستانی بینکوں کے بھی ہزاروں صارفین کے کارڈز کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔
رپورٹ کے مطابق 26 تاریخ کو ڈارک ویب پر فروخت کے لیے ڈالے گئے ڈیٹا میں پاکستان کے 9 بینکوں کے مجموعی طور پر8 ہزار 8 سو 64 ڈیبٹ کارڈز کی تفصیلات درج تھیں۔
انٹرنیشنل ادائیگیوں پر حد بندی
10 ہزار ویزا اور ماسٹر کارڈز کا ڈیٹا چوری ہونے پر بینکوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں کارڈ صارفین کے لیے انٹرنیشنل ادائیگیوں پر اوپری حد لگانے کے آپشن پر غور کیا گیا۔
بینکوں کی جانب سے مانیٹرنگ ٹولز میں اضافے پر غور کیا جارہا ہے اور صارفین کی رقم محفوظ رکھنے کے لیے بینکنگ نظام کو مزید مؤثر بنانے کا امکان ہے۔
بعدازاں پاکستان کے 6 بینکوں نے اپنے صارفین کو برقی پیغام ارسال کیے ہیں جن میں انہیں ڈیبٹ کارڈ سے عالمی ادائیگیوں کی معطلی سے آگاہ کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک کی وضاحت
مرکزی بینک کی جانب سے اس حوالے سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ صرف ایک بینک کا ڈیٹا چوری ہونے کے شواہد ملے ہیں اور دیگر کسی بینک یا قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس حوالے سے آگاہی نہیں دی۔
اسٹیٹ بینک کے اعلامیے میں کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو ایک بینک کا سیکیورٹی حصار توڑا گیا تھا تاہم اس کے بعد اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سائبر خطرے کی نشاندہی اور تدارک کے اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں، بین الاقوامی ادائیگیوں سے متعلق اسکیموں سے تعاون لینے کی ہدایات بھی کی ہیں۔