یمن میں خودکش حملہ
حملے میں ایک تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں حکومت کی حامی پاپولر ریزسٹنس ملیشیا کے ارکان تربیت پاتے ہیں۔
یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب یمن اور سعودی عرب کے درمیان 17 ماہ سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اب تک جھڑپوں میں 6600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 25 لاکھ سے زائد یمنی بےگھر ہو گئے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کیا جانے والا یہ حملہ کس نے کیا، تاہم جنوبی شہر عدن میں ہونے والے اکثر حملوں کے پیچھے القاعدہ یا پھر دولتِ اسلامیہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
اسی دوران حکومت اور باغیوں نے تنازعے کے خاتمے کی کوششوں کا مثبت جواب دیا ہے۔
امریکہ نے گذشتہ ہفتے ایک امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت شیعہ حوثی باغی دارالحکومت صنعاء سے نکل جائیں گے، اور متحدہ حکومت بنانے کے لیے بات چیت شروع کی جائے گی۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ سعودی عرب کی قیادت میں لڑنے والی اتحادی فوج حملے بند کر دے اور انھوں نے جن علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے وہاں سے چلی جائے۔
سعودی اتحاد یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی حمایت میں مارچ 2015 سے یمن میں فضائی حملے کر رہا ہے۔