Featuredدنیا

خاشقجی کے قتل میں ولی عہد ملوث ہوئے تو بھی سعودی عرب کا ساتھ دیں گے، امریکی صدر

واشنگٹن: امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی ملوث ہوئے تو بھی وہ اتحادی ملک سعودی عرب کا ساتھ دیں گے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محمد بن سلمان کو اس واقعے کا علم تھا، ہوسکتا ہے انہوں نے ہی اس کا حکم دیا ہو جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تمام حقائق کبھی نہیں جان سکیں گے، تاہم ہر حال میں سعودی عرب سے ہمارے تعلقات قائم رہیں گے‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’امریکا ایک ثابت قدم ساتھی بننے کا ارادہ رکھتا ہے‘۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ کئی ہفتوں سے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی حکومت کے ملوث ہونے کے ثبوت اور محمد بن سلمان پر اس کا حکم دینے کے الزامات کو ماننے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

تاہم، اس حوالے سے امریکی اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قتل کا حکم سعودی ولی عہد کی جانب سے دیا گیا تھا۔

جس کے بعد اس بات پر سب کی نظریں تھیں کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اتحادی ملک کو سزا دیں گے یا کوئی اور راستہ تلاش کریں گے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں امریکی صدر نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا، انہوں نے کہا کہ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات اس جرم ( جمال خاشقجی کے قتل) میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ممکنہ شمولیت سے زیادہ اہم ہیں۔

’ثابت قدم ساتھی‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان، سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق کسی قسم کی منصوبہ بندی یا عمل درآمد کرانے کے الزام کو مسترد کرتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، ایرانی عزائم کا مقابلہ کرنے میں امریکا کی مدد کرتا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی امریکا سے 4 سو 50 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے معاہدے اور دیگر سرمایہ کاری کا پابند ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سعودی عرب نے تیل کی قیمتیں کم رکھنے میں بھی مدد کی ہے۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’امریکا، سعودی عرب کا ثابت قدم ساتھی بننے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ ہمارے، اسرائیل اور خطے میں موجود دیگر اتحادیوں کے مفادات کو یقینی بنایا جاسکے‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ امریکا کی کانگریس میں محمد بن سلمان پر پابندی عائد کرنے اور سعودی قیادت کے خلاف دیگر اقدمات کرنے کے لیے قرارداد پیش کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ جو بھی تجاویز ہیں میں ان پر غور کروں گا بشرط یہ کہ وہ امریکا کی سلامتی اور مکمل سیکیورٹی سے مطابقت رکھتی ہوں‘۔

واشنگٹن پوسٹ نے ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی اور تجارتی تعلقات کو امریکیوں کے مفادات سے زیادہ اہمیت دی ہے، کیونکہ ہمیشہ کی طرح ان کی خواہش کاروبار کرنا ہے‘۔

واشنگٹن پوسٹ کے پبلشر اور چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) فریڈ ریان نے ایک بیان میں کہا کہ ’ٹرمپ کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ دنیا ایک خطرناک جگہ ہے، لیکن اس ریاستی قتل پر ان کا سرینڈر کرنا دنیا کو مزید خطرناک بنادے گا۔’

’ابھی کچھ حتمی نہیں‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘سی آئی اے کو جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق کچھ خاص نہیں ملا، جبکہ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انٹیلی جنس نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ ولی عہد نے قتل کا حکم دیا تھا۔’

امریکی صدر کے ناقد اور سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جان برینن نے ٹوئٹ کیا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ بے ایمانی میں کمال رکھتے ہیں، اب یہ کانگریس اراکین پر منحصر ہے کہ وہ سی آئی اے کے تجزیے کو قبول کرتے ہیں یا مسترد’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس گھناؤنے جرم میں ملوث سعودی عرب کے کسی ایک شخص بالخصوص محمد بن سلمان کو احتساب سے فرار اختیار نہیں کرنی چاہیے‘۔

تاہم سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب سے واشنگٹن کے تعلقات اس ہولناک قتل سے زیادہ اہم ہیں‘۔

مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ’یہ صدر کے لیے لازم ہے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا فرض ہے کہ ہم ایسی پالیسی اختیار کریں جو امریکا کی قومی سلامتی کے لیے بہتر ہوں اس لیے امریکا، سعودی عرب سے تعلقات قائم رکھے گا کیونکہ وہ ہمارا اہم اتحادی ہے‘۔

تاہم ترک وزیر خارجہ میولوت کاسوگلو نے مائیک پومپیو سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ان کا ملک، جمال خاشقجی کے قتل کا حکم جاری کرنے والے شخص کو، چاہے وہ جو بھی ہو، انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ دوطرفہ مسئلہ ہے جو مجرمانہ اور عدالتی کیس ہے اور اسے اسی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے‘۔

میولوت کاسوگلو کا کہنا تھا کہ ’ابھی بھی کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کی تلاش جاری ہے‘۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close