دنیا

اک خواب سفر میں رہتا ہے

بچے، بڑے، بزرگ، خواتین، جنگلی حیات، درخت، فطرت سب کچھ ہی جنگ کی تباہ حالی کاشکار ہوجاتے ہیں۔

جنگوں سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم، کھیل کود، ان کا پورا بچپن جنگ کی نذر ہوجاتا ہے اور وہ تا عمر اس کے ہولناک اثرات کا شکار رہتے ہیں۔

لیکن بچوں کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ سخت ترین حالات میں بھی وہ اچھے وقت کی آس لگائے ہوتے ہیں اور اس دن کے انتظار میں ہوتے ہیں جب سورج نکلے گا اور اور وہ بلا خوف خطر سبزہ زاروں میں کھیل سکیں گے۔

اقوام متحدہ کے امور برائے انسانی ہمدردی کے ادارے یو این او سی ایچ اے نے جنگ زدہ علاقوں میں ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت جنگوں سے متاثر بچوں سے ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے دریافت کیا گیا

ان فوٹو گرافرز نے اردن میں واقع شامی مہاجرین کے کیمپ اور افریقہ میں شورش زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں موجود بچوں کی تصویر کشی کی۔

اس پروجیکٹ کا مقصد دنیا کو جنگ کے بدنما اور ہولناک اثرات کی طرف توجہ دلانا تھا کہ کس طرح جنگیں اور تنازعات ننھے ذہنوں کے خوابوں کو چھین لیتے ہیں۔

اردن میں پناہ گزین شام سے تعلق رکھنے والی فاطمہ آرکیٹیکچر بننا چاہتی ہے۔ اس کا خواب ہے کہ وہ اجڑے ہوئے شام میں دوبارہ سے خوبصورت گھر اور عمارتیں تعمیر کرے گی۔

وسطی جمہوری افریقہ سے تعلق رکھنے والا مصطفیٰ فوٹو گرافر بننا چاہتا ہے۔

شام سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور بچی ہاجا خلا باز بننا چاہتی ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’میں جب اسکول کی کتابوں میں خلا کے بارے میں پڑھتی تھی تو مجھے وہ بہت دلچسپ لگتا تھا، میں خلا میں جانا چاہتی ہوں‘۔

ہاجا آج کل اردن کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔

وسطی جمہوری افریقہ کی چباؤ پائلٹ بننا چاہتی ہے

عوامی جمہوریہ کانگو سے تعلق رکھنے والا ایلادی سیاستدان بننا چاہتا ہے۔

نائیجریا سے تعلق رکھنے والی سکیما استاد بننا چاہتی ہے۔

ایک اور شامی بچی فاطمہ سرجن بننا چاہتی ہے۔

وسطی جمہوری افریقہ کے مہمت کو فٹبال اور میوزک دونوں کا جنون ہے۔ بڑے ہونے کے بعد وہ ان دونوں میں سے کسی ایک شعبہ میں جانا چاہتا ہے۔

سیرالیون سے تعلق رکھنے والا مائیکل مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔

شامی بچی امینہ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔

اردن میں قیام پذیر منتہا فوٹو گرافر بننا چاہتی ہے۔

وسطی جمہوری افریقہ کی سفینہ شیف بننا چاہتی ہے۔

شامی پناہ گزین نسرین ٹریفک پولیس اہلکار بننا چاہتی ہے۔

وسطی جمہوری افریقہ کا ابراہیم اپنے ملک کی فوج میں بطور سپاہی خدمات انجام دینا چاہتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close