پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں،ترجمان پاک فوج
راولپنڈی: پاک آرمی کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے، لیکن اب نازک دور سے چلتے ہوئے ہم آگے کی جانب آگئے ہیں، اب یا تو آگے نازک وقت نہیں ہے، یا پھر نازک سے بھی زیادہ بد تر وقت ہے۔
پاک شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ میں پاکستان سیکیورٹی کی صورتحال پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے رواں سال بہت تیزی کے ساتھ سیز فائر کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، جن میں عام شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کی جانب سے عام شہریوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم پاکستان ایسی جوابی کارروائی نہیں کرتا جس میں عام شہریوں کا قتل عام ہو۔
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2013 میں وہاں ایک ماہ میں 6 سے 7 دہشت گرد حملے ہو جاتے تھے، تاہم اب یہ صورتحال بہتر ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بلوچستان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں فراریوں نے ہتھیار ڈالے ہیں اور گزشتہ 3 سالوں میں 2 ہزار سے زائد فراری قومی دھارے میں شامل ہوئے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کراچی کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں شہرِ قائد میں سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت تیزی سے بہتر ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں دہشت گردی میں 99 فیصد کمی آئی ہے جس کا سہرا سندھ رینجرز، سندھ پولیس نے اہم کردار ادا کیا۔
آپریشن رد الفساد کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اب تک اس میں 44 آپریشن ہوئے ہیں جبکہ 42 ہزار سے زائد سرچ آپریشن ہوئے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان نے حکومت کے ساتھ مل کر تعمیراتی منصوبوں پر کام کیا ہے، اور ان منصوبوں کو صحافیوں نے سابقہ قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں دیکھا ہے۔
خیبرپختونخوا اور سابقہ قبائلی اضلاع میں چیک پوسٹ کے حوالے سے کہا کہ اس علاقے میں اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم چیک پوسٹ رہ گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس دن فوج کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہاں ایک چیک پوسٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے تو یہ ہٹا دی جائیں گی، لیکن ان کا اس علاقے میں چیک پوسٹ اس لیے موجود ہیں کیونکہ افغانستان سے پاکستان میں بہت خطرات ہیں۔
لاپتہ افراد کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ابتدا میں پی ٹی ایم کی جانب سے ایک فہرست آئی ہے جو تقریباً 7 ہزار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن اور عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر ان کی سماعت کر رہی ہے، جن میں 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ہیں، اور جن میں سے حل نہیں ہوئے ان میں سے 2 ہزار کیس کمیشن کے پاس ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کس طرح چل رہے ہی اس کے بارے میں کسی دن بتایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم اس جانب جارہی ہے جہاں ایسی حد عبور ہوجائے گی جس کے بعد ریاست کو اپنی طاقت کو استعمال کرنا پڑ جائے گا۔
پاک فوج میں احتساب کے بارے میں بتایا کہ یہ منظم ادارہ ہے جس میں احتساب کے لیے ایک لیفٹننٹ جنرل دیکھ رہا ہے جس کے ہمراہ میجر جنرلز بھی ہوتے ہیں، جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس ادارے میں کہاں کیا کوتاہی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 2 سال میں 4 سو سے زائد فوجی افسران کو احتساب کے تحت ہی سزائیں دی گئیں، جن میں سروس کی معطلی اور جیل بھی شامل ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے، لیکن اب نازک دور سے چلتے ہوئے ہم آگے کی جانب آگئے ہیں، اب یا تو آگے نازک وقت نہیں ہے، یا پھر نازک سے بھی زیادہ بد تر وقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے، جہاں قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بنائی جائے جہاں کوئی بھی ادارہ ریاست سے بڑھ کر نہ ہو۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ افغان تنازع کبھی طاقت سے نہیں جیتی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اب افغان طالبان پر وہ اثر و رسوخ نہیں ہے، جیسا پہلے تھا، تاہم کچھ روابط استعمال کرتے ہوئے پاکستان امریکا کی مدد کرے گا۔
پی ٹی ایم سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ان پر اس وقت اس لیے سختی نہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ 15 سال سے جنگ دیکھی، وہ لوگ دکھی ہیں اور اس سے ان کے اپنے متاثر ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر انہوں نے اپنی حد کو عبور کیا تو ان کے ساتھ وہی ہوگا جو ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے کرتی ہے۔
میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی طاقت ایسی ہیں جسے کوئی نہیں روک سکتا اور میڈیا ہی پانچویں جنریشن کی جنگ میں پہلی دفاعی لکیر ہے۔