واشنگٹن: امریکا نے جنگ زدہ ملک شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کو شکست دے دی ہے۔
امریکی فیصلے کے بعد داعش کے خلاف امریکی عسکری تعاون سے لڑنے والے ’کردش ملیشیا‘ کی قسمت پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔
امریکی صدر نے ٹوئٹ کیا کہ ’شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا واحد مقصد داعش کے جنگجوؤں کی شکست تھی‘۔
امریکی صدر کے فیصلے سے متعلق واشنگٹن حکام نے بتایا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے فوجیوں کی واپسی کا فیصلہ گزشتہ روز ہی کرلیا تھا‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’شام سے تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلایا جائےگا‘۔
واضح رہے کہ شام میں تقریباً 2 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو کردش ملیشیا کو ٹریننگ اینڈ ایڈویز کے فرائض انجام دے رہے تھے تاکہ مقامی ملیشیا داعش کا مقابلہ کرسکیں۔
امریکی حکام کی جانب سے فوجیوں کی واپسی کے لیے اوقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
پینٹاگون نے محدود تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ ’فوجیوں کا تحفظ یقینی طور پر اولین ترجیح ہے تاہم واپسی کا عمل جلد از جلد ہوگا‘۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا کہ شام میں داعش کی شکست کے بعد بھی گلوبل کولیشن کا عمل جاری رہےگا‘۔
دوسری جانب حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، یہ امریکا ہی تھا کہ جس نے داعش کو بنانے میں واضح کردار ادا کیا تھا، سینیٹر جان مکین کے شام کے دورہ اور ابوبکر بغدادی کی تصاویر پورے انٹرنیٹ پر بھری پڑی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ایران، عراق اور شام نے مل کر ہی داعش کوشکست دی، البتہ روس اور چین کی حمایت اور مدد ان کے شامل حال رہی۔ آج امریکا کا شام سے نکلنا اپنی رسوائی کا اعلان کرنے جیسا ہے، کیونکہ جان کیری اور ہیلری کلنٹن نے تو بشار اسد کی حکومت کے خاتمے تک مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔