غروبِ آفتاب سے جنگ بندی کا آغاز متوقع
امریکہ اور روس کے درمیان طے کردہ ایک معاہدے کے تحت یہ دس روزہ جنگ بندی عمل میں لائی جائے گی اور اس کے بعد دونوں ممالک کی فورسز ایک مشترکہ آپریشن میں عسکریت پسند جہادیوں کا مقابلہ کریں گی۔
کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ جمعے کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں طے پایا ہے اور شام کے ریاستی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر بشار الاسد نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔
تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مختلف باغی گروہ اس کی پاسداری کریں گے یا نہیں۔
شام میں باغی گروہ فری سیریئن آرمی نے امریکی حکومت کو ایک خط میں کہا ہے کہ وہ اس جنگ بندی میں مثبت انداز میں معاونت کریں گے تاہم ان کا خیال ہے کہ اس سے شامی حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔
ادھر ایک اور طاقتور گروہ احرار الشام نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔گروہ کا کہنا ہے کہ وہ چھ سال سے جاری ان مسائل کے ’کچے پکے حل‘ تسلیم نہیں کر سکتے۔
یاد رہے کہ اس معاہدے کے اعلان کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں فضائی حملے کیے گئے ہیں جن میں کم سے کم 100 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ادلب میں ایک بازار پر حملے میں 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ حلب میں ہونے والے فضائی حملوں میں 45 لوگ مارے گئے ہیں۔
ترکی اور یورپی یونین نے جنگ بندی کے اس منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید اقدامات کی بھی ضرورت پر زور دیا تھا تاہم ترک صدر رجب طیب اردوغان نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ ہمسایہ ملک شام میں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کو شکست دینا ترکی کی ذمہ داری ہے۔
شام میں شورش کا آغاز پانچ سال پہلے صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت سے ہوا اور اب تک اس میں کم سے کم تین لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔