حکومتیں کام نہیں کریں گی تو کوئی تو ذمہ داری پوری کرے گا: چیف جسٹس
لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ حکومتیں کام نہیں کریں گی تو کوئی تو ذمہ داری پوری کرے گا جب کہ پاکستان کے نقصان کے ذمےدار ہم لوگ ہیں جنہوں نے ذمےداریاں پوری نہیں کیں۔
لاہور
انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز میں ایک تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ
‘ہمیں انگریز نے جو قانون دیا، وہ ہمارے کلچر، مذہب اور معاشرتی ضروریات کے
ساتھ ہم آہنگ نہیں، اگر اس قانون کو ہم آہنگ کرنا ہے تو اسے اَپ ڈیٹ
کرنا لازمی ہے’۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘اسلامی اوصاف سے مزین انصاف کا ادارہ نہ ہونے سے معاشرتی پریشانیاں بڑھتی ہیں’۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘حقوق کی آزادی کے بغیر زندگی کچھ نہیں، ہماری زندگی کا اصل اور حقیقی مقصد مخلوق خدا کی خدمت ہونا چاہیے اور ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ باعزت قومیں اور معاشرے کس طرح تشکیل پاتی ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘صورتحال میں بہتری کیلئے کام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومتیں کام نہیں کریں گی تو کوئی تو ذمہ داری پوری کرے گا، ملک کو کسی مزدور، پلمبر، ڈرائیور یا غریب نے نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پاکستان کے نقصان کے ذمےدار ہم لوگ ہیں جنہوں نے ذمےداریاں پوری نہیں کیں’ ۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ‘عالمی برادری میں باوقار قوم اور معاشرہ بننے کے لیے اخلاص کی ضرورت ہے’۔
چیف جسٹس نے تعلیم کے سیکٹر کو نظر انداز کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ‘کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد تعلیم ہے، تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ اور قوم ترقی حاصل نہیں کرسکتی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا’۔
جسٹس ثاقب نثار نے بلوچستان کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس صوبے کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی درسگاہیں سرے سے ہیں ہی نہیں اور جو درسگاہیں ہیں وہاں ٹائلٹ اور پینے کے صاف پانی تک کی سہولت میسر نہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں وڈیروں کی گائے بھینسیں کھڑی ہیں’۔
آخر میں چیف جسٹس نے اپیل کی کہ ‘تعلیم اور صحت کو پیسہ کمانے یا کاروبار کا ذریعہ مت بنائیں، ہمیں اپنی دولت اور اپنا علم اس ملک کو واپس لوٹانا ہے، کیونکہ ہمیں جو کچھ بھی ملا، اسی ملک کے طفیل ملا ہے’۔