دنیا

امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ٹیوب اسٹیشن پر آنے والے مسافر کبھی بھی ناامید نہیں ہوتے، کیونکہ ان کی مایوسی و ناامیدی کو ختم کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے یہ اسٹیشن انہیں روز کسی بڑے مفکر کا کوئی قول سناتا ہے۔

جب مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں تو ان کے کانوں کو بیتھووین کی موسیقی سنائی دیتی ہے، سامنے ہی ایک چھوٹی سی لائبریری نظر آتی ہے جبکہ دیوار پر کسی مفکر کا قول لکھا ہوتا ہے جو انہیں زندگی کی جدوجہد میں نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

اسٹیشن کی سامنے کی دیوار پر ایک سفید بورڈ لٹکایا گیا ہے جس پر سیاہ مارکر سے سقراط سے لے کر پائلو کوہلو تک کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔

یہ کام دراصل اسٹیشن کی انتظامیہ نے شروع کیا ہے۔ 2004 سے شروع ہونے والے اس سلسلہ میں اب ایک لائبریری اور چند بینجوں کا بھی اضافہ ہوچکا ہے جہاں اگر لوگ چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کر سکتے ہیں۔

اسٹیشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا نسلی و صنفی امتیاز پر مبنی اقوال لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

ذرا تصور کریں، جب آپ صبح اٹھیں، اور دیر سے اٹھنے اور آفس یا کلاس کے لیے لیٹ ہونے پر خود کو کوستے ہوئے، بھاگتے ہوئے ٹیوب اسٹیشن میں داخل ہوں، اور سامنے ہی ایک رومی بادشاہ مارکوس کا قول لکھا نظر آئے، کہ ’جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو سوچیں کہ آپ کس قدر خوش نصیب ہیں، جو زندہ ہیں، جو سوچ سکتے ہیں، جو چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور جو محبت کرسکتے ہیں‘، تو کیا اس قول کو پڑھنے کے بعد بھی آپ خود کو برے القاب سے نوازیں گے؟

ایک مسافر کا کہنا ہے کہ وہ روز اس ٹیوب سے سفر کرتی ہے اور جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو اسے انتظار ہوتا ہے کہ آج اسے کس کا قول پڑھنے کو ملے گا۔

وہ بتاتی ہے کہ ایک دن بورڈ پر برازیلین مصنف پائلو کوہلو کا مشہور قول جو ان کی شہرہ آفاق کتاب ’الکیمسٹ‘میں شامل ہے، لکھا تھا، ’دنیا میں صرف ایک چیز آپ کو اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے سے روک سکتی ہے، اور وہ ہے ناکامی کا خوف‘۔ اسے پڑھنے کے بعد اس میں کام کرنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کا نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔

اس بورڈ پر مشہور افراد کے اقوال کے ساتھ کبھی کبھار انتقال کر جانے والی شخصیات کو خراج تحسین، مختلف کھیلوں میں قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی، یا شاہی خاندان کے افراد کی سالگراہوں پر تہنیتی پیغامات بھی درج کیے جاتے ہیں۔

ایک بار آسکر وائلڈ کے ایک قول کے ذریعہ معاشرے کی تلخ تصویر بیان کی گئی، ’آج کل لوگوں کو ہر شے کی قیمت تو پتہ ہے، لیکن کسی شے کی قدر نہیں‘۔

لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن پر شروع ہونے والا یہ رجحان آہستہ آہستہ اب دوسری جگہوں پر بھی پھیلتا جارہا ہے۔ لندن کے کئی ریستورانوں، شراب خانوں، بس اور ٹرین اسٹیشنز پر بھی اس رجحان سے متاثر ہو کر اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے اقوال لکھے جارہے ہیں۔

جیسے شہر کے ایک پب کے باہر نصب بورڈ پر لکھا گیا، ’شراب ہر سوال کا جواب ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شراب پینے کے بعد سوال یاد نہیں رہے گا‘۔

اسی طرح ایک کیفے کے باہر گاہکوں کو تنبیہہ کی گئی، ’اگر آپ نے بدمزاجی سے بات کی تو ہم آپ کو بدمزہ ترین کافی پلائیں گے‘

اقوال سے سجے یہ بورڈز گاہکوں، مسافروں اور دیگر غیر متعلقہ افراد کی توجہ کا فوراً مرکز بن جاتے ہیں اور وہ اس کی تصاویر کھینچ کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں یا اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرلیتے ہیں، یوں روشنی اور امید پھیلانے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close