Featuredبلاگ

امریکہ اپنی بقاء کیلئے کوشاں۔۔۔۔۔۔!

تحریر: تصور حسین شہزاد

افغانستان میں منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ تیزی سے بدلتے حالات جہاں یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ نے اپنا بوریا بستر گول کر لیا ہے، وہیں یہ بھی حقیقت سامنے آرہی ہے کہ امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت بھی اقتدار میں نہیں رہے گی۔ افغان اپوزیشن ہو یا افغان طالبان دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اقتدار میں وہ قوتیں آنی چاہیئں، جنہیں افغان عوام کی حمایت حاصل ہو، جبکہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے، جس کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں۔ ماسکو میں ہونیوالے طالبان کے مذاکرات اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ افغانستان کا پورا منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ طالبان، جو کبھی خواتین کی تعلیم اور معاشرے میں ان کی فعالیت کے مخالف تھے، اب اپنی پالیسی تبدیل کرچکے ہیں۔ ماسکو مذاکرات میں شریک طالبان رہنماء شیر عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان کے بڑھتے اثرات سے خواتین کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ وہ خواتین کو شریعت اور افغان ثقافت کے تحت ان کے سارے حقوق دینے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سکول جا سکتی ہیں، وہ یونیورسٹی جا سکتی ہیں، وہ ملازمت کرسکتی ہیں۔

ماسکو کے مذاکرات میں موجود 2 خواتین میں سے ایک فوزیہ کوفی جو کہ افغانستان میں رکن پارلیمان بھی ہیں، نے بتایا یہ ایک مثبت قدم ہے کہ وہ طالبان جو اب تک افغانستان کے عوام اور بطور خاص خواتین کیخلاف گولیوں کی زبان استعمال کر رہے تھے، وہ اب مائیکرو فون کا استعمال کر رہے ہیں اور خواتین کی آواز سن رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کے ایک رکن نے انہیں کہا ہے کہ خواتین صدر نہیں ہوسکتیں، لیکن سیاسی دفتر میں خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ فوزیہ کوفی نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں، ان کی واقعی وہی نیت بھی ہے، جبکہ طالبان کے رہنماوں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔ عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان اقتدار پر اپنی اجارہ داری نہیں چاہتے، لیکن افغانستان کا آئین جو کہ مغرب سے درآمدہ ہے، وہ امن کی راہ میں رخنہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں طالبان افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اس حوالے سے ان کی تائید کرتی ہیں۔

اگر امریکہ افغانستان سے چلا جاتا ہے تو اس کے بعد طالبان پہلا کام یہی کریں گے کہ آئین کو بھی دیس نکالا دے دیا جائے گا، جس کے بعد بقول طالبان، شریعت نافذ ہوگی اور اس میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اب یہ وہ والے طالبان نہیں رہے، جو 1992ء کے بعد منظر عام پر آئے تھے۔ تب ان کی ابتداء تھی، اب سیاسی حوالے سے یہ کافی میچور ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خواتین کے جائز حقوق کو تسلیم کیا ہے اور مستقبل میں انہیں رعایتیں بھی دینے کیلئے تیار ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس میں ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے والے اپنے دوسرے سالانہ سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اعلان کیا کہ وہ شام اور افغانستان میں جاری لڑائی میں امریکی مداخلت کے خاتمے کے منصوبوں پر کام جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عظیم قومیں نہ ختم ہونیوالی جنگیں نہیں لڑتیں۔ افغانستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان میں 7 ہزار امریکی فوجیوں نے جانیں دیں، جبکہ مشرق وسطیٰ میں 2 دہائیوں سے جاری جنگ پر 7 کھرپ امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔ امریکی صدر کو اپنے 7 ہزار فوجی مروانے اور 7 کھرب امریکی ڈالر جنگ کی آگ میں جھونکنے کے بعد احساس ہوگیا ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت کا فیصلہ غلط تھا۔

اب جبکہ اسی مداخلت  کی پاداش میں امریکی معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ امریکی صدر اپنی قوم کو پھر گمراہ کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں امریکہ آرہی ہیں۔ اگر معیشت بہتری کی جانب جا رہی ہوتی تو امریکہ مشرق وسطیٰ سے اپنی بساط کبھی نہ لپیٹتا۔ یہ اندرونی دباو ہی تھا جس سے مجبور ہو کر وائٹ ہاوس نے مشرق وسطیٰ سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ایران کا خوف بھی امریکہ کی نیندیں خراب کئے ہوئے ہے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اگر امریکہ مشرق وسطیٰ میں مزید قیام کرتا ہے تو آگے ایران کا خطرناک "سپیڈ بریکر” آرہا تھا، جس سے امریکی سپرپاور کا دعویٰ ریت کی دیوار ثابت ہو جانا تھا۔ امریکی صدر کا اپنے اداروں کی ایران کے حوالے سے رپورٹس کے برعکس غُصیلی پالیسی اختیار کرنا ٹرمپ کے اندر کے خوف کی علامت ہے کہ پُرامن ایران بھی اسے ڈریکولا دکھائی دے رہا ہے۔

اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ان کی انتظامیہ نے بہت سے گروپوں بشمول طالبان کیساتھ تعمیری بات چیت شروع کی ہے اور امن معاہدے کیلئے کوششیں کرنے کا یہی وقت ہے۔ افغان طالبان کیساتھ جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچیں گے یا نہیں، تاہم دو دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ہم کم از کم امن کی کوشش کریں۔ یعنی 7 ہزار امریکی فوجی مروانے کے بعد امن کی خواہش جاگی ہے۔ یہ وہ شکست ہے جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی خوش دلی سے تسلیم کر لیا ہے۔ کل تک طالبان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے دعوے کرنیوالا امریکہ آج "امن معاہدے” کی بھیک مانگ کر فرار کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ دنیا میں کسی بھی معاملے کا حل جنگ نہیں ہوتی، ہمیشہ مذاکرات سے ہی معاملات حل ہوا کرتے ہیں۔ جب امریکہ طالبان سمیت شمالی کوریا اور اپنے دیگر مخالفین کیساتھ مذاکرات کر رہا ہے تو وہیں ایران سے بھی خوفزدہ ہونے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سلجھایا جاسکتا ہے۔ ایران پر عائد بے جا اقتصادی پابندیاں امن نہیں بلکہ بغاوت کا راستہ ہیں اور اس راستے کا انجام جنگ پر ہی ہوتا ہے۔ امریکہ اگر اپنی سلامتی کا سوچنے ہی لگ گیا ہے تو اسے ایران کیساتھ بھی بات چیت کا عمل آگے بڑھا لینا چاہیئے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close