ہندو میرج ایکٹ قومی اسمبلی سے منظور
قیام پاکستان سے اب تک ہندوؤں کی شادی کو رجسٹر نہیں کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں موجود ہندو برادری عدم تحفظ کا شکار تھی۔
انسانی حقوق کے وفاقی وزیر کامران مائیکل کی طرف سے یہ بل پیر کو ایوان میں پیش کیا گیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس سے قبل قائمہ کمیٹی نے چھ ماہ سے زائد عرصے سے مشاورت کے بعد اس ہندو میرج بل کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
اس بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ہندو جوڑے کی شادی کے وقت دونوں کی عمریں اٹھارہ سال یا اس سے زائد ہونا لازمی ہے۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر دونوں میاں بیوی ایک سال یا اس سے زائد عرصے سے الگ رہ رہے ہوں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا نہ چاہیں اور وہ شادی ختم کرنے میں رضامند ہوں تو اس کی شادی کی تنسیخ ہو جائے گی۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی کی منسوخی کے چھ ماہ کے بعد فریقین دوبارہ شادی کرسکتے ہیں اور یہ اقدام غیر قانونی نہیں ہوگا۔
اس بل کے مطابق ہندو بیوہ کو بھی اپنے خاوند کی وفات کے چھ ماہ کے بعد دوبارہ شادی کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
قائمہ کمیٹی کی طرف سے اس بل کے بارے میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد یا عورت بغیر کسی معقول عذر کے دوسرے سے میل جول چھوڑ دے تو متاثرہ فریق عدالت میں پٹیشن کے ذریعے حقوق زوجیت کے لیے دعویٰ دائر کرسکتا ہے اور اس میں عذر کا ثبوت اس فریق کو پیش کرنا ہوگا جس نے میل جول ترک کیا۔
اس بل میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ہندو شخص اپنی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرتا ہے تو یہ ایک قابل سزا جرم تصور ہوگا۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ہندو شادی کی رجسٹریشن کی بابت بنائے گئے قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس ایکٹ کے تحت اس کی سزا چھ ماہ قید ہے۔
اس بل میں ہندوؤں کی شادی، خاندان، ماں اور بچے کو جائز تحفظ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔