پاکستان اور انڈیا میں فوجی سطح پر رابطے جاری رہنا ضروری
جمعرات کو امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے معمول کی پریس بریفینگ کے دوران پاکستان اور انڈیا کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی افواج رابطے میں رہی ہیں، اور ہمارے خیال میں حالیہ کشیدگی میں کمی کے لیے ان رابطوں کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔‘
گذشتہ روز جمعرات کو انڈیا نے کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں مبینہ شدت پسندوں کے خلاف ‘سرجیکل سٹرائیکس’ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پار فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیکس کا رنگ دینا حقیقت کو مسخ کرنے کے برابر ہے۔
انڈین وزارت دفاع نے کہا تھا کہ بدھ کی شب کی جانے والی اس کارروائی میں متعدد شدت پسند مارے گئے ہیں جبکہ پاکستان کی فوج کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر انڈین فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے دو پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اور انڈیا کے درمیان اس مبینہ سرجیکل سٹرائیک سے قبل کوئی بات چیت ہوئی تھی؟
اس پر جان کربی کا کہنا تھا کہ ’میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ جان کیری کی انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ 27 ستمبر کو بات چیت ہوئی تھی جس میں انھوں نے 18 ستمبر کو ہونے والے اوڑی حملے کی مذمت کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جان کیری نے ہر طرح کی دہشت گردی کی بھی مذمت کی تھی اور تناؤ میں اضافے کی صورت میں محتاط رہنے کا کہا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ’دونوں ممالک کو ہمارا پیغام یہی ہوگا کہ وہ خطرات سے نمٹنے اور ایسے اقدام سے بچنے کے لیے جن سے کشیدگی میں اضافہ ہو، بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھے اور دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ امریکہ اس خطے کو دہشت گردی سے لاحق خطرات پر مسلسل تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔
جان کربی نے کہا کہ ’دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے۔ ہم لشکر طیبہ، حقانی گروپ اور جیش محمد جیسے شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتے رہیں گے۔‘
دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو معلوم ہو کہ ہم آخری حد تک تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اگر انڈیا اسی طرح کی اشتعال انگیزی جاری رکھتا ہے تو اس صورت میں پاکستان اپنی تمام صلاحیتوں کے تحت اس کا جواب دینے پر تیار ہے۔‘
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے جانے والے الجزیرہ ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو کے دوران اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت بین الاقوامی سرحد، لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈی پر انڈیا کی غیر معمولی فوجی نقل و حرکت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کے علاوہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ورکنگ باؤنڈی پر ٹینک تعینات کیے جا رہے ہیں اور علاقے کو شہریوں سے خالی کرایا جا رہا ہے اور اگر یہ تمام تیاریاں سرحد کو پار کرنے کے لیے ہیں تو اس صورتحال میں پاکستان جواب دے گا۔
ملیحہ لودھی نے 2003 میں ایل او سی پر فائر بندی کے ہونے والے معاہدے کے ختم ہونے کے خدشے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ بالکل اس وقت یہ معاہدہ خطرے میں ہے۔‘
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے انٹرویو میں ’لائن آف کنٹرول پر انڈیا کے ایک فوجی کو پکڑنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس فوجی کو ایل او سی عبور کرنے کی کوشش کے دوران پکڑا گیا۔‘
تاہم پاکستان اور انڈیا کے عسکری حکام نے انڈین فوجی کے پکڑے جانے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں’ انڈین فائرنگ’ جسے انڈیا نے’سرجیکل سٹرائک’ قرار دیا ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پہلے ہی بلایا جا چکا ہے۔