جب لتا منگیشکر نے کورس میں آواز دی
انیل وشواس نے بڑی محبت سے لتا منگیشکر کو بلاتے ہوئے کہا: لتیكے! ادھر آؤ، آپ کورس میں گاؤ۔ اس سے گانا اچھا ہو جائے گا۔
لتا خود اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: دادا نے نہ جانے کس موڈ میں بڑی خوشی سے یہ بات کہی تھی، تو مجھے بھی لگا ان کے دل کی بات کرتے ہیں اور آپ یقین کیجیے کہ مجھے اس وقت کورس میں گا کر بھی اتنا ہی لطف آیا، جتنا کہ ان کے اہم کرداروں کے لیے لکھے جانے والے گیتوں کو گاتے ہوئے آتا تھا۔
اسےایک بڑے فنکار کا دوسرے بڑے فنکار کے لیے احترام کا اظہار ہی کہا جائے گا، کیونکہ جب لتا منگیشکر کورس میں گانے کے لیے تیار ہوئیں اس وقت وہ بالی وڈ کی صف اول کی گلوکاراؤں میں شمار ہوتی تھیں۔
لتا منگیشکر کی زندگی سے وابستہ ایسے ہی دلچسپ واقعات کی روداد ‘لتا- سر گاتھا، یعنی لتا کے سروں کی کہانی۔ اسے وانی پرکاشن نے شائع کیا ہے جس میں لتا منگیشکر کے ساتھ انڈین فلم موسیقی کی بھی جھلک ہے۔
لتا کے سفر کو ان کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کا کام شاعر اور موسیقی کے سکالر يتيندر مشرا نے کیا ہے۔ اس کتاب کے لیے وہ لتا منگیشکر کے ساتھ چھ سال تک وقفے وقفے سے بات کرتے رہے۔
ایک دلچسپ واقعہ محل فلم کے گیت ‘آئے گا آنا والا … آئے گا’ سے منسلک ہے۔ سنہ 1948-49 کا زمانہ تھا، تب ریکارڈنگ سٹوڈیوز نہیں ہوتے تھے، اور گیت کو ریکارڈ کرنے کے لیے خالی سٹوڈیو، درختوں کے پیچھے کی جگہ یا پھر ٹرک کے اندر کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
اس گیت سے منسلک تجربے کے بارے میں لتا بتاتی ہیں: "فلم لاہور کی شوٹنگ چل رہی تھی، بامبے ٹاكيز میں جدن بائی اور نرگس دونوں موجود تھیں۔ میں نے وہیں اپنا گانا ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ جدن بائي دھیان سے سنتی رہیں۔ بعد میں مجھے بلا کر کہا: ادھر آؤ بیٹا، کیا نام ہے تمہارا۔ جی لتا منگیشکر۔
"اچھا تم مراٹھن ہو نا؟ ‘جی ہاں،’ اس پر جدن بائی خوش ہوتے ہوئے کہنے لگيں: ‘ماشاء اللہ۔
"دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں … ‘بغیر’ کا لفظ سن کر میری طبیعت خوش ہو گئی۔ ایسا تلفظ ہر کسی کا نہیں ہوتا بیٹا۔ آپ یقیناً ایک روز بہت مشہور ہوں گي۔
لتا منگیشکر اس شاباشی سے خوش ہو گئی تھیں۔ مگر ان میں لطف کے ساتھ تھوڑا ڈر بھی تھا۔ اس خوف کے بارے میں وہ بتاتی ہیں: "باپ رے! اتنے بڑے بڑے لوگ میرے گیت کو سننے آ رہے ہیں اور اتنے دھیان سے ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہیں۔.”
ویسے آئے گا آنے والا … آئے گا، لتا منگیشکر کا ابتدائی سپر ہٹ گیت ثابت ہوا، اگرچہ اس گیت کے ریکارڈ کے بازار میں آنے سے پہلے موسیقار كھیم چند پرکاش کا انتقال ہو گیا تھا، یہ بات آج بھی لتا منگیشکر کو اداس کر جاتی ہے۔
بہر حال، اس کتاب میں لتا کی زندگی کے ابتدائی دنوں اور جدوجہد بھی شامل ہے۔ سنہ 1943 میں 14 سال کی عمر میں لتا منگیشکر کولہاپور سے ممبئی (ممبئی) کے تھیئٹر فیسٹیول میں شرکت کرنے کے لئے آئی تھیں۔ ان کی خالہ گلاب گوڈ بولے ان کے ساتھ تھیں۔
ممبئی میں لتا اپنے چچا كملاناتھ منگیشکر کے گھر پر ٹھہريں اور وہیں تھیئٹر موسیقی کا ریاض کر رہی تھیں۔ لتا اس سوچ میں ڈوبی تھیں کہ انھیں باپ کے نام کو آگے لے جانا ہے اور موسیقی کی تقریب میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے۔
لیکن ان کے چچا ناراض ہو رہے تھے کہ یہ لڑکی ان کے بھائی کا نام خراب کر رہی ہے، کہاں پنڈت دینا ناتھ منگیشکر جیسا گلوکار اور کہاں یہ لڑکی؟ یہ مناسب طریقے سے گانا نہیں گا پائے گی، جس سے ان کے خاندان کے نام پر برا اثر پڑے گا۔
موسیقار مدن موہن کے ساتھ لتا منگیشکر یہی فکر ان کی پھوپھی اور پھوپھا كرشن راو كولہاپورے (اداکارہ پدمنی كولہاپورے کے دادا) کو بھی ہو رہی تھی کہ لتا مناسب طریقے سے گانا نہیں گا پائے گی۔ یہ سب سن کر لتا دلبرداشتہ ہو گئیں اور رونے لگیں۔
انھوں نے اپنی بات خالہ سے کہی تو خالہ نے یہ کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی کہ تمہیں کسی بھی طرح سے اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، صرف اپنے والد کو یاد کرو، وہ ہی تمہاری موسیقی کو صحیح راہ دکھائیں گے۔
لتا منگیشکر کے والد دینا ناتھ منگیشکرکا سنہ 1942 میں انتقال ہو گیا تھا۔ ممبئی تھیئٹر فیسٹیول کے انعقاد سے پہلے وہ لتا کے خواب میں نظر آئے۔
اس کے بعد لتا منگیشکر نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔.