بلاگ

ہم وہ قوم ہیں جسے کسی سحر کی ضرورت نہیں

صبح کی پہلی کرن ابھی نہیں پھوٹی تھی تاہم رات نے اپنے پرسمیٹنا شروع کرچکے تھے۔ ہرروزکی طرح آج بھی مؤذن مسجدوں سے اللہ کی وحدانیت کا پکارپکارکراعلان کررہے تھے لیکن ہمارے لئے کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ بیتے دنوں کی طرح یہ بھی ایک معمول کی طرح کا دن تھا جس میں ہم سب نے اٹھنا ہے اوراپنے اپنے معمولات میں مشغول ہوجانا ہے۔ ایسے معمولات جن کا نا کوئی سرہے اورنا ہی پیر، نا راستہ ہے اور نا ہی کوئی منزل ایک عجیب ان دیکھی سمت ہے کہ جس میں ہم سب سیدھے ریس کے گھوڑوں کی طرح دوڑے چلے جارہے ہیں۔

ہم بحیثیت قوم ایک ایسی تنویمی نیند میں ڈوبے ہیں کہ جس سے نا تو جاگنا ممکن ہے اورنا ہی ہم جاگنا چاہتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کس عامل نے ہمارے دماغوں کو سحرزدہ کردیا ہے کہ ہم اس کے معمول بنے روز اٹھتے ہیں اپنے روزمرہ کے کاروبارِ زندگی انجام دیتے ہیں پھر اپنی سماجی مصروفیات میں شریک ہوتے ہیں لیکن یہ سب کام ہم ایک ایسی نیند کے عالم میں کرتے ہیں کہ جس سے جاگنے کی ہم میں قوت ہی نہیں، ہاں ایک دو بار ایسا ضرور ہوا کہ ہم اس نیند سے چونکے ضرورلیکن مجال ہے جو جاگنے کی کوشش کی گئی ہو۔

ہمارے عامل نے اس قدر خاموشی سے ہمارے ذہن پر تسلط قائم کیا ہوا ہے کہ ہم جان ہی نہیں پاتے کہ ہم غلام ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اوراسی نشے میں سرشاراقوامِ عالم کی برابری کے غفلت آمیزخواب کے مزے لوٹتے رہتے ہیں حالانکہ اقوامِ عالم کی نظرمیں ہم صرف ایک وحشت زدہ خوابیدہ مخلوق سے کچھ زیادہ نہیں جسے وہ انسان کا درجہ دینے پرتیارنہیں اوردیا بھی کیوں جائے انسان انہیں سمجھا جاتا ہے کہ جو سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ ہم اس نشیلی نیند کے زیرِ اثراپنا اچھا اوربرا سوچنے کی صلاحیت سے یکسرعاری ہیں۔

ہمارےعامل نے ہمارے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کردیا ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے اور ہمارے ملک میں بین الاقوامی طرز کی شاہراہوں، میٹرو بسوں کا جال بچھ رہا ہے لہذا ’سب ٹھیک ہے‘ اورہم اسی سب ٹھیک میں مبتلا رہتے ہیں اورہمیں نظر ہی نہیں آتا کہ ہماری گلی کے نکڑ پر کوئی معصوم بچہ ہاتھ پھیلائے روٹی کی بھیک مانگ رہا ہے، ہم دیکھ ہی نہیں پاتے کہ کسی کمسن بچی کی غذائی قلت کےسبب دم توڑتی آنکھیں ہم سے کچھ سوال کرتی ہیں، ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ جوان لڑکی جو ہمارے گھرمیں کام کاج کرکے اپنے گھرکا چولہا جلاتی تھی گزشتہ شب دو گلی پیچھے کسی گھرمیں اس کی عزت تارتارکرنے کے بعد اسے قتل کردیا گیا اورکوئی بزرگ باپ محض اس جلدی میں سڑک پرحادثے کا شکارہوگیا کہ اس کے جوان بیٹے گھرکا سودا دیرسے لانے پراسے اپنے غیض وغضب کا نشانہ نہ بنائیں لیکن ہم سب یہ کیوں دیکھیں کہ یہ تو جاگتی آنکھوں کا نوحہ ہے اورہم سب سورہے ہیں۔

جون ایلیاء نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’دنیا کے کچھ خطوں کے رہنے والوں نے اپنے لئے وہ گم گشتہ جنت تشکیل دے لی ہے کہ جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا‘‘۔ وہ تو خدا بھلا کرے ہماری اس غیر معمولی اورلافانی نیند کا کہ جس کے نشے میں ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ دنیا کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہے، غاروں میں رہنے والا انسان اب ستاروں سے آگے کہ جہاں کی باتیں کررہا ہے۔

دن ختم ہوگیا اوررات اپنے پورے جوبن پرآگئی یہ رات بھی گزرجائےگی اورنہیں صبح آجائے گی لیکن ہماری نیند میں کوئی فرق نہیں آئے گا اورہم اسی طرح تنویمی نیند کے زیرِ اثرسوتے رہیں گے کہ ہم نے کبی جاگنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ دنیا قیامت کی چال چل رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ یہ اندوہناک سیاہ رات ختم ہونے میں نہیں آتی کہ اقوام عالم میں واحد قوم ہم ہیں کہ جسے کسی سحرسے کوئی غرض نہیں ہے، ہم سورہے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close