پی آئی اے کے طیارے کو حادثہ، 48 افراد ہلاک
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے چیئرمین اعظم سہگل کا کہنا ہے کہ چترال سے اسلام آباد کے سفر کے دوران تباہ ہونے والے مسافر طیارے میں پرواز سے قبل کوئی فنّی خرابی نہیں تھی تاہم حادثے کی اصل وجوہات کا اندازہ تحقیقات کے بعد ہی ہو سکے گا۔
بدھ کی شام پی آئی اے کی پرواز پی کے 661 حویلیاں کے قریب پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی تھی اور اس حادثے میں طیارے پر سوار تمام 48 افراد ہلاک ہو گئے۔
ہلاک شدگان میں مشہور گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید بھی شامل ہیں۔
حادثے کے بعد جائے وقوعہ پر فوج اور سول انتظامیہ نے امدادی کارروائیاں کیں جن کے دوران تمام لاشوں کو ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس منتقل کر دیا گیا ہے جہاں شناخت کے بعد انھیں لواحقین کے حوالے کیا جائے گا۔
حادثے کا شکار ہونے والے مسافر جہاز میں 42 مسافر،عملے کے پانچ اراکین اور ایک گراؤنڈ انجینیئر سوار تھا جبکہ مسافروں میں 31 مرد نو خواتین اور دو شیر خوار بچے شامل تھے۔
پرواز پی کے 661 کی روانگی کا وقت تین بج کر تیس منٹ تھا جبکہ اسلام آباد آمد کا وقت چار بج کر 40 منٹ تھا۔
پی آئی اے کا کہنا ہے جہاز میں عملے کے پانچ افراد سوار تھے جن میں طیارے کے کپتان کیپٹن صالح جنجوعہ، معاون پائلٹ احمد جنجوعہ، فرسٹ آفیسر علی اکرم اور فضائی میزبان عاصمہ عادل اور صدف فاروق شامل ہیں۔
اس سلسلے میں بدھ کی شب اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی آئی اے کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ میتوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے جمعرات کی صبح اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پائلٹ نے حادثے سے قبل مے ڈے کی کال دی تھی اور حادثے میں انسانی غلطی کا امکان نہیں لگتا۔
چیئرمین پی آئی اے نے بتایا کہ حادثے کے وقت طیارے سے ایک انجن کے ناکارہ ہونے کی اطلاع دی گئی تھی تاہم امید تھی کہ طیارہ ایک انجن کی مدد سے بحفاظت اترنے میں کامیاب رہے گا۔
اعظم سہگل کے مطابق شام چار بج کر نو منٹ پر طیارے کے کپتان نے انجن فیل ہونے کے بارے میں مطلع کیا جس کے سات منٹ بعد طیارہ ریڈار سے غائب ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں گی کہ صرف ایک انجن کے فیل ہونے پر حادثہ کیسے ہوا۔
اعظم سہگل نے یہ بھی بتایا کہ ملبے سے بلیک باکس تلاش کر لیا گیا ہے جسے انٹرنیشنل سیفٹی بورڈ کو بھیجا جائے گا جس سے حادثے کی اصل وجوہات کا پتہ چل سکے گا۔
انھوں نے اس خیال کو بھی رد کیا کہ پرواز سے پہلے طیارے میں کوئی فنی خرابی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا ایک ماہ قبل معائنہ کیا گیا تھا۔
اعظم سہگل نے فنی خرابی کے باوجود طیارے کو پرواز کی اجازت دینے کی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔
انھوں نے ماضی میں جہاز کی خرابی اور مرمت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہاز خراب ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی مرمت کی جاتی ہے۔
پی آئی اے کے چیئرمین کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والا جہاز سنہ 2007 میں تیار ہوا اور اسی سال پی آئی اے میں شامل ہوا۔
حادثے کا شکار ہونے والے پائلٹ کیپٹن جنجوعہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اعظم سہگل نے بتایا کہ وہ 12 ہزار گھنٹے کی پرواز کر چکے تھے۔