میانمار کی فوج انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث
اپنی تازہ رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کے قتل، ریپ، ٹارچر اور لوٹنے کے الزامات لگائے ہیں۔
تاہم میانمار کی حکومت ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ریاست رخن میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے جب علاقائی رہنما ینگون میں پرتشدد کارروائیوں پر بحث کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔
دس ملکوں پر مبنی علاقائی تنظیم آسیان بہت کم کسی ایک ملک کے معاملات پر بحث کے لیے اجلاس کرتی ہے۔
رخن میں پرتشدد کارروائیوں کے بارے میں اطلاعات اکتوبر میں آنی شروع ہوئیں جب فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔
آپریشن اس وقت شروع کیا گیا جب ایک گروپ نے سرحدی پولیس پر حملہ کیا گیا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے میں ملوث شدت پسند گروپ میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان تھے۔
یاد رہے کہ نومبر میں اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ میانمار کی حکومت روہنگیا کی ‘نسل کشی’ کر رہا ہے۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ نے سیٹیلائٹ تصاویر بھی جاری کیں جس میں تباہ کیے گئے دیہات دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ عالمی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میانمار یا برما میں روہنگیا اقلیت کی جانب سے سرحدی محافظوں پر حملے میں ملوث افراد کے تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم حرکہ الیقین کا قیام بھی سعودی عرب میں عمل میں آیا تھا اور اس کے آپریشنز کی نگرانی بھی وہیں سے کی جاتی ہے۔
رواں سال اکتوبر میں میانمار کے سرحدی محافظوں پر ہونے والے اس حملے میں نو پولیس اہلکار مارے گئے تھے جس کے بعد مسلم اکثریتی ریاست رخائن میں روہنگیا آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوگیا تھا۔
ریاستی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کریک ڈاؤن میں اب تک 86 افراد مارے گئے جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 27 ہزار افراد جن کی اکثریت روہنگیا اقلیتی آبادی پر مشتمل ہے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں۔