زخمی فلسطینی شہری کو مارنے والے اسرائیلی فوج کے مقدمے کا فیصلہ آج
اسرائیل کی فوجی عدالت سارجنٹ ایلور ایزرایا کو ایک زخمی فلسطینی شہری کو ہلاک کرنے کے مقدمے میں اپنا فیصلہ دینے والی ہے۔
سارجنٹ ایلور ایزرایا پر قتل خطا کا الزام ہے۔
20 سالہ سارجنٹ ایلور ایزرایا نے 21 سالہ عبدل فتح الشریف کو گذشتہ مارچ میں غرب اردن میں سر پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس کیس پر اسرائیل میں منقسم رائے پائی جاتی ہے۔
بہت ساروں کی رائے ہے کہ فوج کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر ملزم کو لازمی سزا ملنی چاہیے جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ ملزم کا اقدام ٹھیک تھا۔
فلسطینی نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ ایک ایسے وقت ہوا تھا جب گذشتہ برس فلسطینوں کی جانب سے چاقوؤں سے اسرائیلیوں پر حملوں کی لہر جاری تھی۔
فلسطین اور اسرائیل کے حقوق انسانی کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ حملوں کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کو ظاہر کرتا ہے جبکہ انھوں نے سارجنٹ ازریریا پر الزام لگایا ہے کہ وہ ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ سارجنٹ ایزرایا نے’ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی اور بغیر کسی آپریشنل جواز
کہ یہ اقدام اٹھایا جس میں دہشت گرد زخمی حالت میں زمین پر پڑا تھا اور اس سے فوری طور پر کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔’
شریف اور ایک دوسرے فلسطینی نے گذشتہ برس 24 مارچ کو الخلیل میں ایک اسرائیلی کو چاقو کے حملے میں زخمی کر دیا تھا۔ فوجیوں کی جوابی کارروائی میں شریف زخمی ہو گئے تھے جبکہ قصراوی نامی دوسرا شخص مارا گیا تھا۔
اس واقعے کی فوٹیج میں شریف فائرنگ کے نتیجے میں زخمی حالت میں پڑا تھا اور ایک فوجی جس کی شناخت سارجنٹ ایزاریا کے نام سے ہوئی اس نے کئی میٹر کے فاصلے سے اپنی رائفل سے اس پر فائرنگ کر دی۔
فائرنگ کے بعد سارجنٹ ایزاریا نے اسرائیلی ملٹری پولیس کو بتایا تھا کہ وہ چاقو شریف کی پہنچ میں تھا جس سے حملہ کیا گیا اور انھیں یہ خدشہ بھی تھا کہ ممکنہ طور پر اس نے دھماکہ خیز مواد سے بھری جیکٹ بھی پہن رکھی تھی۔
تاہم بعد میں اس واقعے کی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق سارجنٹ ایزاریا نے زخمی فلسطینی پر فائرنگ کرنے سے پہلے اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا کہ’ میرے دوست پر حملہ کرنے والا موت کا حق دار ہے۔’