اسلام آباد

عدالت نے طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوا دیا

سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد کا شکار بننے والی دس سالہ کمسن بچی طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوا دیا ہے جبکہ اسلام آباد پولیس کو اس کی سکیورٹی کے مناسب اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کمسن طیبہ کچھ روز کے لیے اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہے گی اور اس عرصے کے دوران اس کی کونسلنگ بھی کی جائے گی۔

بدھ کے روز عدالت نے اسلام آباد پولیس کے حکام کو کہا کہ وہ اس واقعے سے متعلق دس روز میں رپورٹ دیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس از خود نوٹس کی سماعت کی تو متاثرہ بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ طیبہ کے والدین ہونے کے تین دعوےدار بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

اسلام آباد کی انتظامیہ کی طرف سے طیبہ پر ہونے والے تشدد کے بارے میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق طیبہ کے جسم پر زخموں کے 22 نشانات پائے گئے ہیں۔ اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں اس وقت کا تعین نہیں کیا گیا کہ یہ زخم کب لگائے گئے تھے۔

لڑکی کے والد محمد اعظم نے عدالت میں بیان دیا کہ اُنھیں لڑکی سے اس وقت ملوایا گیا جب صلح نامہ متعلقہ عدالت میں جمع کروا دیا تھا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے کیسے تحقیق کیے بغیر طیبہ کو محمد اعظم کے حوالے کر دیا۔

عدالت نے کمسن بچی پر ہونے والے تشدد میں صلیح نامہ اور ملزمہ کی عبوری ضمانت کی دستاویزات سیل کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس معاملے کو بھی دیکھے گی کہ لڑکیوں کو گھروں میں نوکریاں دلوانے کے لیے کوئی گینگ تو متحرک نہیں ہے۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی کاشف محمود کو حکم دیا کہ وہ کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اس معاملے کی تحقیقات میں تمام پہلووں کو مدنظر رکھیں اور دس روز میں اس واقعے کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں۔

دوسری طرف اسلام آباد پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج راج خرم علی کی اہلیہ کے خلاف طیبہ پر تشدد سے متعلق درج ہونے والے مقدمے میں انسانی سمگلنگ کی دفعات کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔

اس از خودنوٹس کی سماعت اب 18جنوری کو ہو گی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close