روس اور چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں بشرطیکہ دونوں ممالک تعاون کریں۔
ٹرمپ نے وال سٹریٹ جرنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس پر عائد حالیہ پابندیاں کچھ عرصے تک قائم رہیں گی لیکن پھر انھیں اٹھایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے ون چائنا پالیسی کے متعلق کہا کہ اس بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے۔ فی الحال اس پالیسی کے تحت امریکہ تائیوان کو چین سے علیحدہ تسلیم نہیں کرتا۔
اپنے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر ماسکو اسلامی شدت پسندی کے خلاف جنگ اور دوسرے معاملوں میں واشنگٹن کی مدد کرتا ہے تو روس پر سے پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا: ’اگر آپ ساتھ چلتے ہیں اور واقعتاً روس ہماری مدد کرتا ہے تو پھر کوئی کسی پر پابندی کیوں لگائے گا جب کوئی واقعی اچھا کام کررہا ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن سے ان کی ملاقات طے کی جائے گی۔
بیجنگ کے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چین کو امریکی کمپینوں کو کرنسی کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلے میں شریک ہونے کی اجازت دینی پڑے گی۔
انھوں نے گذشتہ مہینے ون چائینا پالیسی پر سوال کیے تھے جس سے چین کے سرکاری میڈیا کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔
دریں اثنا امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کی کوششوں کے دعوؤں کی تفتیش کرے گی۔
سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے ریپبلکن اور ڈیموکریٹک رہنماؤں نے کہا کہ تفتیش کا نتیجہ کچھ بھی ہو وہ اپنی
تفتیش جاری رکھیں گے۔
وہ روس کی سائبر اور انٹیلی جنس کی سرگرمیوں کی تفتیش کریں گے۔ اس سلسلے میں وہ موجودہ امریکہ انتظامیہ اور نو منتخب صدر ٹرمپ کی ٹیم سے بات چیت کریں گے۔
کمیٹی اس بات کی بھی تحقیقات کرے گی کہ کیا امریکی انتخاب کی مہم سے منسلک افراد کا روس سے کوئی رابطہ تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں سمن جاری کیا جائے گا اور ضروری ہوا تو حلف نامہ بھی داخل کرایا جائے گا۔
زیادہ تر کام رازدارانہ طور پر انجام دیا جائے گا لیکن سینیٹروں کا کہنا ہے کہ جہاں مکمن ہوگا وہ کھلے عام سماعت کریں گے۔
سینیٹروں نے کہا کہ وہ رازداری اور غیر رازداری دونوں قسم کی رپورٹس کو پیش کریں گے۔
نو منتخب صدر نے جمعے کو ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ ان کی ٹیم بھی ’ہیکنگ کے معاملے میں ایک رپورٹ 90 دنوں میں داخل کرے گی۔‘
ٹرمپ نے انتخابات میں روسی مداخلت کے دعووں کو جھوٹی خبر اور من گھڑت قرار دیا تھا۔
دسمبر میں صدر اوباما نے ہیکنگ کے الزامات کے جواب میں 35 روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا تھا۔