افغانستان کا خواتین سازندوں پر مشتمل آرکسٹرا
اس بار عالمی اقتصادی فورم میں جہاں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کارئےشرمین عبید چنانے ایک اجلاس میں خطاب کیا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فنکارہ بن گئیں، وہیں اس فورم میں ایک اور تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اس بار اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے افغانستان کا ایسا آرکسٹرا اپنی پرفارمنس پیش کرے گا جو مکمل طور پر خواتین سازندوں پر مشتمل ہے۔
زہرا نامی اس آرکسٹرا میں شامل تمام فنکاراؤں کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کچھ فنکارائیں افغان یتیم خانوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں جبکہ کچھ نہایت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
یہ منفرد اور افغانستان کا پہلا خواتین آرکسٹرا آج اور جمعہ کو اجلاس کے اختتامی کنسرٹ میں 3000 کے قریب مختلف اداروں کے سربراہان اور سربراہان مملکت کے سامنے اپنی پرفارمنس پیش کرے گا۔
یہ آرکسٹرا افغانی موسیقار ڈاکٹر احمد سرمست کی کوششوں کا ثمر ہے جو افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے بانی ہیں۔
ڈاکٹر سرمست کو اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دے کر انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان لڑکیوں کے لیے بھی بے شمار خطرات کھڑے کر لیے ہیں۔
سنہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے دور میں تو موسیقی قطعی ممنوع تھی۔ تاہم ان کے بعد بھی افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں موسیقی، اور وہ بھی خواتین کی شمولیت کے ساتھ نہایت ناپسندیدہ ہے۔
اس سے قبل بھی ڈاکٹر سرمست ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جب سنہ 2014 میں کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہی نہیں، اپنے شوق کی تکمیل کی پاداش میں اس آرکسٹرا کی لڑکیوں اور ان کے استاد کو مستقل دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔
آرکسٹرا کی سربراہی نگین خپلواک نامی موسیقارہ کے ہاتھ میں ہے جو کنڑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیوس میں مختلف سربراہان مملکت کو اپنے فن سے مسحور اور حوصلے سے انگشت بدنداں کردینے کے بعد، جب یہ واپس اپنے گھر پہنچے گی تو اپنی ببیسویں سالگرہ منائے گی۔
نگین کہتی ہے، ’موسیقی افغان لڑکیوں کے لیے ایک شجر ممنوع ہے۔ یہاں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے اسکول نہیں بھیجتے، کجا کہ موسیقی کی تعلیم کے لیے موسیقی کے ادارے میں بھیجنا، قطعی ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا واحد مقام گھر ہے‘۔
لیکن نگین کا اس مقام تک پہنچنا اس کے خاندان کا مرہون منت ہے۔ اس کے والد اور والدہ نے اس کے شوق کی خاطر پورے خاندان سے لڑائی مول لی اور اس کا ساتھ دیا۔ ’میری دادی نے میرے باپ سے کہا تھا، اگر تم نے اپنی بیٹی کو موسیقی کے اسکول بھیجا، تو تم میرے بیٹے نہیں رہو گے‘۔
اس کے بعد نگین کے خاندان نے اپنا آبائی علاقہ کنڑ چھوڑ کر کابل میں رہائش اختیار کرلی۔
وہ بتاتی ہے کہ اس کے ایک انکل نے اسے دھمکی دی تھی، ’میں نے تمہیں جہاں بھی دیکھا، میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تم ہمارے لیے باعث شرم ہو۔‘
وہ کہتی ہے کہ گو کہ دارالحکومت کابل میں نوکریاں نہیں ہیں، زندگی بہت مشکل ہے، ’مگر زندگی تو ہے‘۔