دنیا

سفری پابندی کا ایگزیکیٹو آرڈر معطل

امریکی ریاست واشنگٹن کے ایک جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر لگائی جانے والی پابندی کو ملک بھر میں عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

سیئیٹل کے ڈسٹرکٹ جج جیمز رابرٹ نے حکومتی وکلا کے اس موقف کے خلاف فیصلہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت عراق، ایران، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن سے امریکہ آنے والوں کے ویزے 90 روز تک معطل کر دیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی امریکہ آمد پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے۔

گذشتہ ہفتے یہ حکم نامہ سامنے آنے کے بعد صدر ٹرمپ کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔ ایئرپورٹس پر اس حکم نامے کے بعد بہت ابتر صورتحال دیکھنے کو ملی تھی۔

اب امریکی کسٹمز کے حکام نے امریکی فضائی کمپنیوں سے کہا ہے کہ جب تک معاملہ عدالت میں ہے وہ پابندی سے متاثرہ ممالک کے شہریوں کو امریکہ لا سکتی ہیں۔

تاہم ٹرمپ انتظامیہ اگر اس فیصلے کے خلاف ہنگامی حکمِ امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ ان کی آمد کا سلسلہ پھر روک سکتی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اس عدالتی فیصلے کو زیادتی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا حکم قانونی اور مناسب ہے۔

امریکی محکمۂ انصاف نے کہا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا۔

محکمہ خارجہ کے اعدادوشمار کے مطابق صدارتی حکم نامے کے اجرا کے بعد سے اب تک 60 ہزار ویزوں کو معطل کیا جا چکا ہے۔

وفاقی جج کا یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک بڑا اور اہم چیلنج ہے، جس مطلب یہ ہے کہ اصولی طور پر جن سات مسلم ممالک پر پابندی لگائی گئی تھی ان کے شہری اب امریکی ویزا کے لیے درخواستیں جمع کروا سکتے ہیں۔

تاہم انتظامیہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا ایگزیکٹیو آرڈرز کے حوالے سے موقف یہ ہے کہ انھوں نے ایسا امریکہ کا تحفظ کرنے کے لیے کیا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close