دنیا

فرانس میں بھی بنیادپرست اسلام اور عالمگیریت کے خلاف لہر

فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی رہنما ماری لی پین نے صدارتی انتخابات کے لیے اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے ‘گلوبلائزیشن’ اور ‘بنیادپرست اسلام’ پر حملہ کیا ہے۔

نیشنل فرنٹ کی امیدوار نے فرانس کے مشرقی شہر لیون میں اپنے حامیوں سے کہا کہ ‘گلوبلائزیشن دھیرے دھیرے مختلف برادریوں کا گلا گھونٹ رہی ہے۔

فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی رہنما ماری لی پین نے صدارتی انتخابات کے لیے اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے ‘گلوبلائزیشن’ اور ‘بنیادپرست اسلام’ پر حملہ کیا ہے۔

نیشنل فرنٹ کی امیدوار نے فرانس کے مشرقی شہر لیون میں اپنے حامیوں سے کہا کہ ‘گلوبلائزیشن دھیرے دھیرے مختلف برادریوں کا گلا گھونٹ رہی ہے۔

فرانس میں رواں سال 23 اپریل کو انتخابات ہونے والے ہیں جسے کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ کھلا ہوا تسلیم کیا جا رہا ہے۔

سوشلسٹ لیڈر اور موجودہ صدر فرانسووا اولاند دوسری بار انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

نیشنل فرنٹ خود کو موجودہ حکومت کی اصل مخالف پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پارٹی رہنما امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے اور بریگزٹ سے پیدا ہونے والی ‘تبدیلی’ کی لہر سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں ہیں۔

جس پارٹی نے کبھی ایک تہائی سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کیے وہ اپنے تاثر میں نرمی لا کر حلقۂ اثر بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ لی پین پہلا راؤنڈ تو جیت جائیں گی لیکن دوسرا نہیں۔

نیشنل فرنٹ کو فرانسیسی عوام کی پارٹی بتاتے ہوئے لی پین کہتی ہیں کہ وہ ‘آزاد، خودمختار اور جمہوری ملک’ چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گلوبلائزیشن کا مطلب ‘غلاموں کی بنائی ہوئی مصنوعات کی بے روزگاروں کو فروخت’ ہے۔

نیشنل فرنٹ کے مطابق اس کا حل ‘مقامی سطح پر ہونے والے انقلاب میں مضمر ہے جو ہوشیاری سے کیے جانے والے تحفظ اور معاشی جب الوطنی کے رہنما اصولوں کے تحت ہو۔’

انھوں نے یورپی یونین کو ‘ناکام’ قرار دیا اور کہا کہ ‘وہ اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔’

لی پین کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین میں فرانس کی رکنیت برقرار رکھنے کے لیے مزید شرائط طے کریں گی اور ناکامی کی صورت میں ریفرینڈم کا سہارا لیں گی کہ آیا لوگ یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

لوسی ولیمسن نے بتایا کہ ماری لی پین کے پروگرام میں لوگوں کا موڈ قدرے فٹ بال میچ اور راک کنسرٹ جیسا تھا۔

کانفرنس میں موجود 3000 حامیوں کے سینوں پر سرخ سفید اور نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بیج لگے تھے، ہلکی روشنی والے آڈیٹوریم میں جب یکایک فرانس کا قومی ترانہ بجنے لگا تو وہاں موجود لوگوں کی زبان پر نعرہے گونجنے لگے، ‘آن ایسٹ شیز نوس’ یعنی ‘ہم گھر پر ہیں یا آرام سے ہیں’ جو کہ نیشنل فرنٹ کا غیر سرکاری نعرہ ہے۔

بعض سرویز کے مطابق لی پین کے وعدوں نے ان کے لیے اتنا تو کیا ہے کہ وہ انتخابات کا پہلا مرحلہ جیت جائیں گی۔ تاہم ان کے لیے دوسرا مرحلہ جیتنا مشکل ہو گا۔

دوسرے راؤنڈ کے لیے ان کے حریفوں نے دوسری جماعتوں کے بھی ووٹ اپنی طرف کھینچنے میں کامیابی حاصل کی ہے جو ماری لی پین اب تک نہیں کر سکیں۔

دوسری جانب دائیں بازو میں میانہ روی برتنے والے امیدوار فرانسوا فیلن کو مالی سکینڈل کا سامنا ہے اور ایسے میں لی پین کا مقابلہ اعتدال پسند سابق بینکر ایمینوئل میکرن سے ہو سکتا ہے جو پہلی بار انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔

اگر ایسا ہوا تو فرانس اپنا اگلا صدر سیاست سے باہر کے دو لوگوں میں سے کسی کو چنے گا۔

اسی ہفتے لوو میوزیم کے باہر ہونے والے چاقو کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے لی پین نے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خطرے سے متبنہ کیا۔

انھوں نے ‘بنیاد پرست اسلام کے تحت’ فرانس کی ایک سياه تصویر دکھائی جہاں خواتین کو ‘کیفے میں جانے یا سکرٹ پہننے پر پابندی ہو گی۔’

فرانس میں تقریباً 50 لاکھ مسلم آباد ہیں جو مغربی یورپ کے کسی بھی ملک میں اقلیتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close