مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود فتنے اور کینسر سے کم نہیں
14 مئی اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
رپورٹ : فخر زیدی
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود فتنے اورکینسر سے کم نہیں۔ یہ فلسطینیوں کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ برطانیہ اور امریکا کی اس ناجائز اولاد کو دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں کی حمایت حاصل ہے جو اس کی ہر جائز اور ناجائز حرکت کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ منہ زور اسرائیل آئے دن فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نت نئے پہاڑ توڑتا رہتا ہے اور ان کا خون پانی کی طرح بہاتا رہتا ہے لیکن کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
اسرائیل کے قیام کی کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب 19 ویں صدی کے آخر میں آسٹریا کے ایک منحوس باشندے ڈاکٹر ہرزل نے جسے ’’بابائے صہیونیت‘‘ کہا جاتا ہے یہ فتنہ پرور نظریہ پیش کیا کہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کی جائے۔ اس کے بعد اس باطل نظریے کو دنیا بھر کے یہودیوں میں پھیلا دیا گیا۔
یورپ اور امریکا کے بڑے بڑے سرمایہ دار یہودیوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے بڑے بڑے فنڈز قائم کیے تاکہ فلسطین جاکر آباد ہونے والے یہودیوں کو کرایہ اور زمین خریدنے کے لیے مطلوبہ رقوم فراہم کی جاسکیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس سے قبل فلسطین میں رہائش پذیر یہودیوں کی تعداد 34000 تک محدود تھی جب کہ 1947 تک یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 6 لاکھ 8 ہزار تک جا پہنچی ۔ فلسطین میں آباد عربوں کی غالب اکثریت نہ صرف غریب اور مفلس تھی بلکہ ان پڑھ بھی تھی۔ ان کا جرم ضعیفی دہرایا تھا۔
چنانچہ سرمایہ دار یہودیوں نے بے چارے نادار فلسطینیوں کی کمزوری سے بھرپور ناجائز فائدہ اٹھایا۔ یہودیوں کی عالمی تنظیم نے اپنے دلالوں کو وہاں بھیج دیا جنھوں نے زمینیں دگنے داموں خریدنے کی انتہائی پرکشش پیشکش دینا شروع کردیں۔ یوں یہودیوں کی آبادی میں دھڑا دھڑ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 14 مئی 1948 کو وہ منحوس دن آیا جب برطانیہ نے یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد عربوں کے فلسطین سے جبری انخلا کا ظالمانہ اور لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
یوں یہودیوں کا وہ ناپاک منصوبہ روبہ عمل آگیا جس کی 60 برس سے زیادہ عرصے سے تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اسرائیل کے قیام سے امریکا کی لاٹری نکل آئی۔ امریکا کو جب اپنے کاروباری مفادات کے فروغ اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اس علاقے میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی تو یہودی رہنماؤں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔
عالمی صیہونی کانگریس 1897 میں منظم ہجرت کے یہودی منصوبے کو حتمی شکل دے دی۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور امریکا کے با اثر یہودی سرمایہ داروں نے وہاں کی حکومتوں پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور ان حکومتوں کی نگاہیں مدت دراز سے یہودی سرمایہ داروں کی بے تحاشا دولت پر للچاہٹ کے ساتھ مرکوز تھیں۔ چنانچہ برطانیہ کی حکومت نے پہلی عالمگیر جنگ سے ذرا پہلے یہ اعلان کردیا کہ وہ یہودیوں کے فلسطین میں ان کے وطن کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اعلان تاریخ میں ’’اعلان بالفور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہی منحوس اعلان ’’اسرائیل‘‘ نامی ریاست کے ناجائز قیام کا نقطہ آغاز بنا۔ اس اعلان کے جواب میں دنیا بھر کے یہودیوں نے برطانیہ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر اس نے یہودیوں کے وطن کے قیام میں مدد دی تو دنیا بھر کے یہودی اس تعاون کے عوض حکومت برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیں گے۔
24 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تقسیم فلسطین کی تجویز منظور کرکے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا راستہ صاف کردیا جس کے ساتھ ہی فلسطینیوں کی ابتلا کا آغاز ہوگیا اور ان پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی سیاہ رات شروع ہوگئی۔ اس ناپاک تجویز کی منظوری ہوتے ہی فلسطینی مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا اور انھیں یہ دھمکی بھی دی گئی کہ وہ بیت المقدس سے جلد ازجلد نکل جائیں ورنہ ان کا صفایا کردیا جائے گا۔
تب سے آج تک مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کا انسانیت سوز سلسلہ جاری ہے اور عالمی امن کے چیمپئن چپ سادھے ہوئے محض تماشائی بنے ہوئے ہیں اور عالم یہ ہے کہ ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘انسانی حقوق کی نام نہاد علم بردار تمام تنظیموں کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ناقابل بیان جور و ستم کے حوالے سے سانپ سونگھ گیا ہے جس سے ان کا اخلاقی دیوالیہ پن بے نقاب ہوگیا ہے اور ان کا دوغلا پن ثابت ہوگیا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا ایک وفد خلافت عثمانیہ کے غیرت مند بادشاہ سلطان عبدالحمید سے ملاقات کے لیے گیا اور سلطان سے یہ درخواست کی کہ فلسطین میں زمین کا ایک ٹکڑا ان کو بخش دیا جائے تاکہ وہ کرہ ارض پر کہیں تو یہودی ریاست قائم کرسکیں لیکن سلطان نے ان کے اس خطرناک منصوبے کو فوراً مسترد کردیا۔
یہودیوں کو یہ بات ہضم نہ ہوسکی اور انھوں نے کفر کے سربراہوں کے ساتھ سلطان کے خلاف سازش کرکے خلافت کا خاتمہ کرا دیا۔ خیال رہے کہ یہودیوں کا یہی وفد تھا جو سلطان عبدالحمید کی معزولی کا پروانہ لے کر اس کے دربار میں پہنچا تھا اور سلطان سے کہا تھا کہ اب بھی وقت ہے کہ مان جاؤ لیکن غیرت مند سلطان نے یہودیوں کے ناجائز مطالبے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا اور یوں اپنی بادشاہت قربان کردی۔
بے رحم اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ 5 مئی کو 260 مقامات پر میزائل حملے کیے اور نہتے شہریوں پر جنگی طیاروں کے ذریعے اندھا دھند بمباری کی۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں ترک خبر رساں ایجنسی ’’اناتولو‘‘ کو بھی نشانہ بنایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان حملوں ما حکم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نئی حکومت کی سربراہی کی خوشی میں دیا تھا۔ یہودیوں کے حمایتیوں کی ناجائز اولاد ’’اسرائیل‘‘ کا ناپاک وجود حقیقت سہی لیکن اس کی قانونی حیثیت قطعی متنازع ہے کیونکہ ملک اس طرح معرض وجود میں نہیں آتے۔
درحقیقت یہودیوں کی یہ ریاست مکمل غاصبانہ طریقے سے معرض وجود میں آئی ہے۔ جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسرائیلی ایوان پارلیمان میں واضح الفاظ میں یہ لکھا ہوا ہے ’’اے اسرائیل! تیری سرحدی حدود نیل سے فرات تک ہیں۔‘‘ فلسطین کی تقسیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی 24 نومبر 1947 کو منظور کی گئی قرارداد اس ادارے کے دوغلے پن کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کے ذریعے اس تنازع کے فیصلے کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی منظور کی ہوئی قرارداد پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
ایک طرف فلسطین میں مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ تر کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ اقوام عالم پر صاف ظاہر ہے۔ دونوں جانب مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور عالمی ضمیر ہے کہ مسلسل سو رہا ہے لیکن یہ خون ناحق رائیگاں نہیں جائے گا۔ بقول شاعر:
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
حضرت امام خمینی (رہ) نے جمعۃالوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا تھا اور اس روز کی اہمیت اس قدر آشکار کی کہ اسے یوم الاسلام اور یوم اللہ قرار دیتے ہوئے امت اسلامی کو اسے منانے کی بھی بھرپور تاکید فرمائی۔ انبیاء (ع) کی سرزمین فلسطین اور قبلہء اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کو چونسٹھ برس گذر چکے ہیں۔ 15 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست کو امام راحل امام خمینی (رہ) نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور امت کو اس کی آزادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی تھی، مگر خائن عرب حکمرانوں نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے تسلیم ہونے کی ذلت کو گوارا کیا۔
آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کرکے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے ان 64 برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں ڈکٹر فتحی شقاقی، شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
ظلم کی یہ سیاہ رات جسے اسرائیل کی صورت میں برطانیہ و امریکہ نے دنیا پر مسلط کیا، ایک دن چھٹ کر رہے گی ۔۔۔۔۔۔ آج نہیں توکل ۔۔۔۔۔۔ دنیا اس صیہونی ریاست کے وجود سے پاک ہوگی ۔۔۔۔۔۔ اور وہ دن کتنا خوبصورت اور خوشگوار ہوگا جب دنیا کے نقشہ سے اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا۔ اور ہم سب مل کر ارض مقدس میں قبلہء اول کے اندر نماز ادا کریں گے اور دنیا پر امن و سلامتی کا راج ہوگا ۔۔۔۔ اور عالمی یوم القدس بھی قدس میں ہوگا، جہاں شہیدوں کو یاد کرکے آزادی کے نغمے گنگنائے جائیں گے۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔