منظور نظر افراد کو ترقی دینے کے لئے اہل افسران کو نظر انداز کیا جاتا ہے، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ منظور نظر افراد کو ترقی دینے کے لیے اہل افسران کو بائی پاس کر دیا جاتا ہے اور سینئر افسران کو نظر انداز کرنے کی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی۔ انکم ٹیکس کی خاتون افسر رعنا احمد کی درخواست پر ایف بی آر میں گریڈ 21 کے افسران کی گریڈ 22 میں پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایف بی آر بورڈ کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور خواجہ ظہیر احمد کی شرکت پر حیرت اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار اور خواجہ ظہیر اجلاس میں شرکت کے اہل نہیں تھے، دونوں کی اجلاس میں حیثیت اجنبی سے زیادہ نہیں تھی، بتایا جائے کہ اسحاق ڈار کس قانون کے تحت اجلاس میں شریک ہوئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لگتا ہے خاتون افسر کو ٹارگٹ کر کے پروموشن نہیں دی گئی، اسحاق ڈار کے پاس افسران سے متعلق ایسی کون سی تفصیلات تھیں جو چیرمین ایف بی آر کے پاس نہیں تھیں؟ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جن افراد کو ترقی ملی ان کے خلاف متعدد رپورٹس موجود تھیں۔ سیکرٹری اسٹلیشمنٹ نے جواب دیا کہ دونوں نے وزیر اعظم کی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بیورو کریٹ ہی حکومت کا نظام چلاتے ہیں لیکن سینئر افسران کو نظر انداز کرنے کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اجنبی لوگ اجلاس میں بیٹھے ہوں گے تو ایسے ہی فیصلے ہوں گے، جس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں کوئی اجنبی شخص نہیں بیٹھے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ کی بات اپنی جگہ، پہلے والے اجلاس کی کارروائی ختم کریں، زیادہ بات کرنا نہیں چاہتے تاکہ معاملہ کسی دوسری طرف نہ چلا جائے۔ عدالت نے ایف بی آر حکام کو افسران کی پرموشن کے لیے از سر نو اجلاس بلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے فیصلے سے عدالت کو بھی آگاہ کیا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اجلاس میں ممبران کے علاوہ کوئی اجنبی شخص شریک نہ ہو۔
سپریم کورنے سلیکشن بورڈ کے یکم اگست 2016 کی پروموشنز کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ایک ماہ میں اعلیٰ سطح کے بورڈ کا اجلاس بلا کر ایف بی آر افسران کی پروموشن کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کردی۔