الف نون‘ پہلی مرتبہ سنہ 1965 کو پاکستان ٹیلی ویژن سے شروع ہوا
35 برس ہو گئے ہیں لیکن ان کی پُراسرار موت کا معمہ آج تک حل نہیں ہوا پولیس نے ان کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے اس کیس کی فائل بند کر دی تھی مگر ان کے بہت سے ساتھی آج بھی اس موت کو خودکشی ماننے کو تیار نہیں ہیں
رفیع خاور ننھا کی زندگی کی ابتدا خوشیوں، کامیابیوں اور قہقوں سے لبریز تھی لیکن اُن کا انجام انتہائی دلخراش تھا۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق ننھا نے دو نالی بندوق اپنے منھ میں رکھ کر گولی چلائی تھی جس سے اُن کا کھوپڑی اڑ چکی تھی اور عقب میں موجود دیوار خون سے لت پت تھی۔
جس رات ننھا کی موت واقع ہوئی اُس رات انھوں نے اپنے دوست علی اعجاز کو فون کیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنی زندگی میں مجھے بتایا تھا کہ ننھا زندگی کے آخری ایام میں انتہائی ڈپریشن کا شکار تھے، انھوں نے ایک عرصہ سے شراب نوشی اپنی عادت بنا لی تھی اور اُس رات بھی وہ نشے میں تھے۔
اپنے عروج کے دور میں ننھا اپنی ساتھی اداکارہ نازلی سے عشق کرنے لگے تھے اور یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ دونوں شادی کر چکے ہیں ہیں تاہم نازلی نے بعد میں دعویٰ کیا تھا اُن دونوں کے مابین دوستی ضرور تھی لیکن انھوں نے نکاح نہیں کیا تھا۔ ننھا کے اہلخانہ، ان کی پہلی بیوی اور بیوی کے بھائیوں کو ننھا اور نازلی کے تعلقات پر شدید اعتراض تھا اور اس عشق کا چرچہ نگار خانوں میں زبان زد خاص و عام تھا۔
رفیع خاور ننھا چار اگست 1944 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے، اُن کے والد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے جو بعدازاں لاہور کے علاقہ شاد باغ میں آ کر آباد ہوئے۔ ننھا نے اپنا نام اور مقام بڑی محنت سے بنایا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر فربہ تھے اور سکول میں بچے اُن کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔
اس وقت ان کے سامنے درجنوں معروف اداکار موجود تھے لیکن انھوں نے قدرے جونیئر فنکار کو منتخب کیا۔ الف نون نشر ہوا تو الن (
کمال احمد رضوی ) اور ننھا (رفیع خاور) لوگوں کے محبوب فنکار بن گئے تھے جبکہ یہ سیریز جنوبی ایشیا میں ٹیلی ویژن کی تاریخ میں فیملی ڈرامہ کی پہلی مثال ثابت ہوئی۔
پولیس ریکارڈ اور میڈیا کے مطابق اداکار رفیع خاور ننھا نے محبت میں ناکامی پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی تھی۔
تنویر زیدی نے بتایا کہ ننھا کے آخری خط (جس میں انھوں نے خودکشی کرنے کی اطلاع دی تھی) کے بارے رائٹنگ سپیشلسٹ نے تصدیق نہیں کی تھی کہ واقعی یہ خط ننھا نے مرنے سے قبل خود تحریر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:تارے زمین پر کا ننھا درشیل خوبرو نوجوان بن گیا
سینئر کرائم ایڈیٹر بابا جمیل چشتی بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ 35 سال قبل رونما ہوا تھا لیکن جائے وقوعہ انھیں آج تک یاد ہے۔
’ننھا کے منھ اور ناک سے بہنے والا خون جم چکا تھا۔ ننھا کی لاش کے اوپر چادر ڈال دی گئی تھی اور پیچھے دیوار پر خون کے ساتھ
دماغ کے لوتھڑے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے اس وقت بھی رپورٹ کیا تھا کہ پولیس ننھا کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے عجلت سے کام لے رہی ہے۔‘
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد سے ثابت نہیں ہوتا تھا کہ ننھا نے خودکشی کی ہے۔ بندوق کی نالی اگر منھ میں رکھ کر گولی چلانے کی کوشش کی جائے تو ہاتھ ٹریگر تک پہنچنا ناممکن ہے یہ امر بھی مضحکہ خیز ہے کہ ننھا نے بندوق کا ٹریگر پاؤں کے انگوٹھے سے چلایا جس سے موت واقع ہوئی۔‘
ننھا کی موت کو پولیس نے خود کشی قرار دے کر فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دی تھی لیکن یہ دلوں پر حکومت کرنے والے فنکار کے بے مثل فن کا کرشمہ ہے کہ آج 35 سال گزر جانے پر بھی پرستاروں نے ان سے محبت کی فائل بند نہیں کی۔