Featuredدنیا

خاشہ سو جاؤ، آرام سے سو جاؤ، کیونکہ ہم سب خاموش ہیں

وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر درمیان میں بیٹھا تھا، دائیں بائیں دو مسلح شدت پسند موجود تھے، گاڑی کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے پھر کسی نے پوچھا، ’خاشہ کو کہاں سے گرفتار کیا ہے

تو خاشہ نے جواب دیا کہ گھر سے۔ لیکن کیسے؟ اور پھر اپنے مزاحیہ انداز میں خاشہ نے گالی کے ساتھ کچھ کہا کہ اتنے میں ایک شدت پسند نے اسے چہرے پر تھپڑ رسید کر دیا اور کہا ’خبیث‘۔
اس کے بعد آواز آئی ’لے جاؤ اسے اور باندھ دو‘۔

نذر محمد عرف خاشہ زوان، افغانستان کے شہر قندھار کے مزاحیہ اداکار تھے، جو اپنے طنز میں اور عام طور پر باتوں میں بھی گالیوں کا بے تحاشہ استعمال کرتے تھے۔

چند روز پہلے نذر محمد عرف خاشہ زوانکی لاش ملی تھی۔ خاشہ کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ خاشہ کو گھر سے مسلح افراد اٹھا کر لے گئے تھے اور پھر ایک درخت کے پاس سے ان کی لاش ملی۔ بظاہر مقامی سطح پر یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ خاشہ کو طالبان نے گرفتاری کے بعد قتل کر دیا تھا۔

اس قتل کے بعد سے افغان طالبان پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد افغان طالبان نے بھی اپنا موقف

تبدیل کر دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد افغان طالبان نے اس کی تفتیش کا حکم دیا ہے۔

افغانستان میں فنکاروں کو ہنر مند کہا جاتا ہے اور مزاحیہ اداکار جو طنزیہ باتیں کرے اسے ’ٹوک مار‘ یعنی جگتیں کرنے والا کہا جاتا ہے۔

نذر محمد عرف خاشہ بھی ایک طرح سے مزاحیہ فنکار بھی تھے اور جگتیں بھی لگایا کر تے تھے۔

نذر محمد عرف خاشہ زوان پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور پولیس میں بھی وہ فنکار ہی مشہور تھے۔

ان کا مزاحیہ انداز مقامی سطح پر انتہائی پسند کیا جاتا تھا اور لوگ ان کی محفل میں بیٹھ کر خوب لطف اٹھاتے تھے۔
خاشہ زوان کی گرفتاری کے وقت بھی موقع پر موجود لوگ اپنی باتوں میں ہنستے ہوئے یہی کہہ رہے تھے کہ خاشہ گرفتار ہونے کے بعد بھی مذاق کر رہے ہیں۔ انھیں شاید معلوم نہیں تھا کہ آگے ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اسد صمیم نے بتایا کہ خاشہ کی ہلاکت کو لگ بھگ ایک ہفتہ ہوگیا ہے اور اس بارے میں قتل کے فورا بعد زیادہ رد عمل نہیں آیا تھا لیکن جب سے خاشہ کی گرفتاری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اس کے بعد سے اس قتل کی مذمت ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے 90 ڈسٹرکٹ ہمارے زیر اثر ہیں : طالبان

قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ابتدا میں کہا کہ اس کے قتل میں طالبان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن جب اس کی ویڈیو سامنے آئی اور اس میں خاشہ زوان مسلح طالبان کی حراست میں تھے تو سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔

افغان طالبان کے افغانستان میں موجود ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ خاشہ پولیس میں بھرتی تھے اور ان کی ایک تصویر میں خاشہ کے ساتھ کلاشنکوف پڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مزید تفتیش کی جا رہی ہے کہ خاشہ کو کس نے مارا ہے۔

اسی طرح افغان طالبان کے ایک ترجمان قاری محمد یوسف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ خاشہ جو مذہبی رہنماؤں پر طنز کرتے تھے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
افغان طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان اپنی باتوں میں افغان طالبان پر تنقید کرتے تھے اور اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔
افغانستان اور پاکستان میں سیاسی قائدین، صحافی اور فنکار اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔

سینیئر صحافی طاہر خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ طالبان تبدیل نہیں ہوئے، اگر طالبان سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ افغانستان پر حکمرانی کریں گے تو یہ غلط ہے۔‘

افغانستان میں شفیقہ اخپلواک اپنی ٹوئٹ میں لکھتی ہیں ’خاشہ سو جاؤ، آرام سے سو جاؤ، کیونکہ ہم سب خاموش ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان وحشتوں کا نظارہ کر رہے ہیں، انتظار کر رہے ہیں کہ اس سے زیادہ برا ہم کیا دیکھیں گے۔’

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے افغانستان کے سری لنکا میں سفیر اشرف حیدری کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان کے ہاتھوں معصوم افغان مزاحیہ فنکار خاشہ زوان کے ماورائے عدالت قتل سے قوم کے دل ٹوٹ گئے ہیں اور یہ کہ قوم طالبان اور ان کے معاونین کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے افغان طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ملک کے بیشتر علاقوں سے تشدد کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے بیشتر حصے پر قابض ہو چکے ہیں جبکہ افغان حکومت کی طرف سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان کے مطابق کچھ علاقے تو ایک منصوبے کے تحت خالی کیے گئے تھے اور کچھ علاقے افغان طالبان سے خالی کرا لیے گئے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close