مشال خان کے قتل کے معاملے میں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا، وزیر داخلہ
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہمشال خان کا قتل سفاکیت کی انتہا ہےاور مشال خان کے قتل کے معاملے میں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا جس سے بہت غلط پیغام گیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مردان کی یونیورسٹی میںطالب علم مشال خان کا قتل سفاکیت کی انتہا ہے، مشال خان کے قتل کے معاملے میں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا اس سے بہت غلط پیغام گیا ہے کیوں کہ اسلام میں غیرمسلم سے بھی زیادتی کی اجازت نہیں جب کہ اس معاملے پر صوبائی حکومت نے اچھا اقدام کیا ہے بس جوڈیشل انکوائری کا انتظارکر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو غائب کرنا ہماری حکومت کی پالیسی نہیں، سندھ سے 3 افراد اٹھائے گئے ہیں اس طرح لوگوں کا غائب ہونا خلاف قانون ہے، ہم نے بڑی کوشش کی ہے لوگ اٹھائے نہ جائیں، پہلے بلاگراوراب ان 3 افراد کا غائب ہونا ناقابل قبول ہے لہٰذا ان 3 افراد کی گمشدگی پرصوبائی حکومت سے تعاون کے لیے تیارہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں امن وامان کی ذمے داری صوبائی حکومت کی بھی ہے جب کہ اسلام آباد سے جوشخص اٹھایا گیا اس کے پولیس کے ذریعے کچھ شواہد ملے ہیں اور اس پرمزید کام کررہے ہیں جب کہ اس سے متعلق ڈی جی آئی ایس آئی اورآئی بی کوکہا ہے۔
کراچی میں رینجرز اختیارات کے معاملے پرچوہدری نثار کا کہنا تھا کہ رینجرزاختیارات کوہمیشہ مسئلہ بنایا گیا ہے، وزارت داخلہ رینجرز اختیارات سے متعلق حکومت سندھ سے رابطے میں ہے اور اس سے متعلق نئے نوٹی فکیشن کا اجرا سندھ حکومت جلد کردے گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے رینجرز کا کلیدی کردار ہے جس کے لیے رینجرز کا کام جاری رہنا چاہیے اورپورا کراچی بھی آپریشن کی حمایت کررہا ہے۔ چوہدری نثار نے ڈان لیکس کے حوالے سے کہا کہ ڈان لیکس کے معاملے پراتفاق رائے ہوگیا ہے، چند دنوں میں آپ کی تسلی ہوجائے گی اور آئندہ 3 روزمیں ڈان لیکس سےمتعلق رپورٹ وزارت داخلہ کوموصول ہوجائے گی جو وزیراعظم کوپہنچا دوں گا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر گستاخی سے متعلق مواد ہٹایا گیا ہے اورفیس بک نے 80 سے زیادہ پوسٹیں ہٹادی ہیں جب کہ فیس بک کے نائب صدراگلے ماہ پاکستان آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی سفیروں کو بھی توہین آمیزمواد سے متعلق کاپی دے دی، امید ہے یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔ چوہدری نثار نے شناختی کارڈ کے معاملے پر کہا کہ پشتونوں کے ایک لاکھ 25 ہزارشناختی کارڈمنسوخ کیے ان میں سے بیشترپشتون نہیں افغان شہری ہیں، اس معاملے پر ایک وزیراعلیٰ اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے آئے اور شورمچایا گیا کہ پشتونوں کا اسلام آباد میں داخلہ روکا گیا، کہنا چاہتا ہوں کہ تمام قومیتیں ایک گلدستہ ہیں اورسیاستدان کا کام قوموں کو جوڑنا ہے، اس لیے اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ شناختی کارڈ قومی ایشوہے اسے سیاسی مسئلہ بنایا جارہا ہے اور اس معاملے کو پشتون مخالف رنگ دیا جارہا ہے جب کہ شناختی کارڈ کا مسئلہ پشتونوں یا پنجابیوں کا نہیں پاکستان کا ہے،شناختی کارڈ بلاک کرکے کوئی جرم نہیں کیا کیوں کہ جوپاکستانی نہیں اس کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں ہونا چاہیے۔