امام حسین کی شہادت ہمیں حق کی راہ میں قربان ہو جانے کی ترغیب دیتی ہے
محرم اور معرکہ کربلا انصاف کے لیے جدوجہد کی تحریک ہے۔ امام حسین نے حق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔
رپورٹ:فخر زیدی
شہادت امام حسینؑ میں سب سے بڑا سبق یہ پوشیدہ ہے کہ ظلم کے آگے سرنہ جھکایا جائے اور انسان اپنی خوداری اور شرف کو ظالم کے قدموں میں روندنے کے لئے نہ ڈال دے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ غیر ضروری طور پر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا جائے اور خونریزی سے تحفظ کی کوئی باعزت راہ ہو تو اسے تلاش نہ کیا جائے قتل وغارتگری ، فتنہ وفساد اور ظلم وتشدد اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں، اسلام کا مطلب ہی امن وسلامتی ہے کرۂ ارض پر آباد تمام انسان یہاں تک کہ چرند پرند، حیوان اور چیونٹیوں تک کو اسلام میں امان وپناہ ہے، ہرے بھرے درختوں کی حفاظت، ماحولیات کے رکھ رکھاؤ اور انسانوں پر عائد انسانوں کے ھقوق کی ادائیگی کا حکم ہے، لیکن اگر ظالم کسی طرح نہ مانے اور اس کی سرکشی حد سے سوا ہوجائے تو پھر اسلام ظلم کے خلاف اٹھنے اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ ایسا نہ کیا جائے تو حق مغلوب اور باطل غالب آجائے گا پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا اسوہ اسی جانب ہماری رہبری کرتا ہے جسے نواسہ رسول نے اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا۔
’واقعہ کربلا‘‘ کو حق وباطل کے درمیان معرکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو اسلام کی ’’شورائی جمہوریت ‘‘کے تحفظ کے لئے ملوکیت یا ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لڑی گئی اس جمہوریت میں مسلمانوں کے خلیفہ یا امیر کا انتخاب عام لوگوں کے مشورے سے کیا جاتا ہے جس کا جانشینی یا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی بزعم خود یا طاقت کے زور پر خلیفہ اور امیر بن جائے اس نظام نے آج سے چودہ سو برس پہلے سماجی اونچ نیچ اور ادنیٰ واعلیٰ کے امتیاز کو مٹادیا تھا، جرم وسزا میں کسی کے ساتھ تفریق نہیں تھی، غلطی خواہ امیر کرے یا کسی غریب سے سرزد ہو، شریعت کی نظر میں دونوں کی حیثیت مساوی ہے، اس اسلامی جمہوریت کے طفیل میں نسلی امتیازات اور قبائلی غرور کا خاتمہ ہوا ،ایک دوسرے کے دشمن ہمدرد بن گئے، ان کی تمام تر پسماندگی ترقی میں بدل گئی، اونٹوں کی ریوڑ لے کر ریگستانوں کی خاک چھاننے والے مسلمانوں، ملکوں اور قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگے، اس جمہوریت کی بنیاد سب سے پہلے اسلام نے رکھی جسے یزید نے ڈھانے کی کوشش کی۔
امام حسینؓ کی میدان کربلا میں صف آرائی درحقیقت اسلام کے مزاج میں تغیروتبدل کے خلاف ایک ایسی مزاحمت تھی جو رہتی دنیا تک حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتی رہے گی آزادی ضمیر، آزادی فکر اور اختلافِ رائے کا حق آج کے جمہوری دور کا ایک امتیاز ہے جس کو چھیننے والی حکومت کبھی جمہوری قرار نہیں پاسکتی۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی حکومت اور اقتدار کے مطالبہ بیعت کو ٹھکرا کر رہتی دنیا تک اپنے عمل وکردار سے یہ سبق دے دیا کہ جبر کی بنیاد پر کسی سے کوئی مطالبہ وفاداری باطل ہے اور اس جبر واستبداد کا مقابلہ اس عزیمت کے ساتھ ہونا چاہئے کہ ’سر کٹ جائے مگر جھکے نہیں‘ معاشی نظام کے متوازن ہونے کا تصور موجودہ عہد کی بیشتر حکومتوں کا ایک موثر حربہ ہے شخصی نظام ہو یا آمریت اس میں معاشی عدم توازن اور طبقاتی اونچ نیچ ضرور پیدا ہوجاتی ہے، جمہوریت میں بھی عموماً یہ خرابی در آتی ہے کہ برسراقتدار گروہ دولت ووسائل پر حاوی ہوجاتا ہے حضرت حسین ابن علیؓ نے جب مطالبہ بیعت کو ٹھکرایا تو منجملہ دیگر باتوں کے یہ بھی فرمایا جس کا مفہوم تھا کہ ’’حکومت مال مسکین پر قابض ومتصرف ہے جو جائز نہیں‘‘ اس بلیغ فقرہ سے اسلام میں دولت کے تصور تقسیم پر روشنی پڑتی ہے جو جمع ہونا نہیں تقسیم ہونا ہے، کسی کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے مال پر قابض ومتصرف ہوجائے عوام کی دولت عوام میں ہی تقسیم ہونا چاہئے یہی نعرہ آج کی نام نہاد فلاحی مملکتیں بھی بلند کررہی ہیں لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔
حضرت امام حسینؓ کے لشکر میں عرب وعجم کی تخصیص اور قبائلی عصبیت کا عمل دخل نہ تھا لشکر کے میمنہ یا میسرہ کے سردار حضرت زہیر ابن قین تھے جو اس دور کی سیاسی اصطلاح میں ’’عثمانی‘‘ تھے یعنی حضرت حسینؓ نے ہر طبقہ اور خیال کے افراد کو ایک مرکز پر جمع کرکے یہ ثابت کردیا کہ جب اعلیٰ اصول اور بلند اقدار اور بنیادی نظریات کا سوال آجائے تو جزوی اختلافات کو دور کردینا چاہئے اور حق وسچائی، دین وملت کی حفاظت اس میں سب سے زیادہ اہم ہے۔
’’واقعہ کربلا‘‘ اقوام عالم کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ جنگ وتشدد میں اپنی طرف سے پہل نہ کرو کیونکہ حضرت حسینؓ نے آخر وقت تک جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی اور لشکر یزید کو پندونصیحت فرماتے رہے، اسی طرح حسینی کارنامہ دنیا کے کچلے ہوئے عوام کا خون کھولا دینے اور مردہ ذہنیت میں حرارت و دلیری کی روح پھونک دینے کے لئے کافی ہے جیسا کہ میدان کربلا کے خطاب میں آپ نے فرمایا۔
’’دیکھو لوگوں ! زندگی کی ذلت اور قتل ہوجانا دونوں ہی ناگوار عمل ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بغیر چارہ نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ بہتر یہی ہے کہ موت کی طرف قدم بڑھا دیا جائے‘‘۔
آج کی دنیا جو نظر سے محروم اور نظریات میں گرفتار ہے جب خالص مادی بنیادوں پر شہادت حسین کا تجزیہ کرتی ہے تو اسے یہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ کتابوں کے صفحات پر کچھ لکھ دینا الگ بات ہے اور اپنے عمل وکردار سے کتابِ دل پر خون کی سرخی سے عنوانِ حیات رقم کرنا قطعی دوسری بات ہے یہی کارنامہ حضرت امام حسینؓ نے انجام دیا ہے۔
شبِ عاشور امام حسینؑ نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمہاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔
اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین کی شہادت ہمیں حق کی راہ پر چلتے ہوئے کوئی بھی قربانی دینے کی ترغیب دیتی ہے
محرم کے مہینے میں ہمیں کسی بھی طرح کی قربانی دینے، بے خوف ہوکر سچائی کی حمایت کرنے اور باطل کی مخالفت کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔