سینیٹرز کا توہین مذہب قانون کا غلط استعمال روکنے پر زور
اسلام آباد: سینیٹ میںمشعال خان تشدد کیسپر بحث کے دوران سینیٹرزنے پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ریڈیو پاکستان کیرپورٹکے مطابق سینیٹ میں مردان کی عبدالولی خانیونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے توہین مذہب کے الزام میں قتل اور ملک میں دیگر ایسے واقعات میں اضافے کے بارے میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہجوم کا مشترکہ تشدد کا رجحان معاشرے میں معمول بنتا جارہا ہے، جبکہ پارلیمنٹ کو توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کا قانون لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے بچانے کے لیے ہے کیونکہ کسی گستاخی کے واقعے پر نظر رکھنے کے لیے ریاست موجود ہے۔ انہوں علماء کرام پر زور دیا کہ وہ اسلام کا حقیقی پیغام لوگوں تک پہنچائیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ لبرل عناصر کو بھی مذہب پر تنقید کرنے کے بجائے اسے بہتر طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ انتہا پسندانہ ذہنیت تبدیل کرنے کے لیے سیاستدانوں، قانون سازوں، علماء کرام، وکلاء اور معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور پاکستان اور اسلام کا مثبت تشخص اجاگر کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی عدم برداشت ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے، جبکہ ہجوم کے تشدد پر نظر رکھنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندی کم کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ انہوں نے سینیٹ چیئرمین پر اس حوالے سے جوابی بیانیہ تیار کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے پر زور دیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
بندرگاہوں اور جہاز رانی کے وزیر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کو اگر نہ روکا گیا تو معاشرے میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور علماء کرام سے درخواست کی کہ وہ معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میں ہاتھ بٹائیں۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ مشعال کے قتل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیئے اور ان کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیئے۔ پارلیمانی امور کے وزیر شیخ آفتاب احمد نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں طالب علم کا قتل افسوسناک سانحہ ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، صوبائی حکومت معاملے کی تفصیلی تحقیقات کر رہی ہے اور پولیس نے اب تک47 ملزمان کو گرفتارکیا ہے۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کرے گی۔