گوادر دھرنا: مظاہرین کے حکومتی وفد سے مذاکرات ناکام ہوگئے
گوادر : اپنے مطالبات کے حق میں "گوادر کو حق دو تحریک” شروع کی گئی ہے۔
گوادر میں دیا گیا دھرنا گیارہویں روز بھی جاری ہے ، حکومتی وفد سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔
بلوچستان حکومت کی طرف سے ایک مذاکراتی کمیٹی نے گوادر میں دھرنا کے مقام پر آکر مذاکرات کیے، جس میں رکن صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی، احسان شاہ اور لالہ رشید شامل تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سمندر میں ٹرالرنگ تیز ہوچکی ہے اور کوسٹ گارڈ کی زیادتی بڑھ گئے ہیں۔ حکومتی وفد اور دھرنا منتظمین کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے۔
جماعت اسلامی کے مقامی رہنماء مولوی ہدایت الرحمان بلوچ دھرنے کی قیادت کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب تک یہاں سیکورٹی فورسز کو محدود اور ٹرالرنگ کا خاتمہ نہیں ہوگا احتجاج جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ گوادر میں پانی کا مسئلہ پرانا ہے، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام نے پانی و دیگر سہولتوں کے لیئے احتجاج کیا، جس نے دھرنے کی شکل اس وقت اختیار کرلی جب انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں اسسٹنٹ کمشنر گوادر راجہ اطہر عباس خود مظاہرین کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ان میں سے ایک کو پکڑ کر زور سے زمین پر گرادیتے ہیں۔
اس احتجاج کے دوران اسسٹنٹ کمشنر کا وہ جملہ بھی سوشل میڈیا پر زیر بحث رہا جب انھوں نے نیشنل پارٹی کے کارکنوں کو غصے میں کہا کہ پانی دینا تھا تو اپنی حکومت میں دیتے۔
ڈپٹی کمشنر گوادر عبدالکبیر زرکون کا کہنا ہے کہ گوادر میں احتجاج بنیادی طور پر تین مسائل کی وجہ سے کیا جارہا ہے، جن میں سے دو حل ہوگئے ہیں جبکہ تیسرے کے حل کے لیے ہم وفاقی حکومت کے متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔
انتظامیہ کے مظاہرین پر اس قسم کے رویے نے عوام میں غصے کو بڑھا دیا اور اب گیارہویں روز بھی مظاہرین کی بڑی تعداد دھرنے پر بیٹھی ہے، تاہم دھرنا مکمل طور پر پر امن ہے۔