ٹرمپ نے تو اپنا فیصلہ کرلیا، مسلمان کب کریں گے؟
امریکی عوام نے اسلامک فوبیا کے دباؤ میں آکر ڈونلڈ ٹرمپ نامی جس کلہاڑے پر اپنا پاؤں مارا ہے، اُس کے خطرناک اور دور رس اثرات بالعموم امریکی عوام اور بالخصوص مسلم دنیا کو تادیر برداشت کرنا پڑیں گے۔ کہاوت ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون کی کل سیدھی؟ لیکن اب ٹرمپ نے یہ اعزاز بھی اونٹ سے چھین لیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، ٹوئٹس، بیانات اور حرکات کرنے والے ٹرمپ نے اپنے بیرونی دوروں کا اکاؤنٹ کھولا بھی تو مسلمانوں کے مقدس ترین ملک سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے شیخوں سے اگلے 10 برسوں میں 110 ارب ڈالر کا اسلحہ اور ٹیکنالوجی فروخت کرنے کے معاہدے کیے حالانکہ اپنا اوبامہ اِس سے زیادہ کا چونا شیخوں کو 8 برسوں میں لگا گیا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ریاض میں ہونے والی عرب اسلامی امریکی کانفرنس میں ہمارے میاں صاحب بھی بینڈ باجے بارات کے ساتھ پہنچے تھے۔ سرکاری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ جیسے مسلمان دشمن صدر سے اچھا ہوا ہاتھ نہیں ملایا۔ ویسے بھی یہ ’امریکا عرب‘ سمٹ تھی کوئی مسلم سمٹ نہیں تھی۔ لیکن ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھائی پھر میاں صاحب کو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ بدخواہوں کا اِس دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہمیں چھوٹے بنے رہنے کی اتنی عادت ہوگئی ہے کہ چھوٹتی ہی نہیں۔ جبکہ کچھ کا فرمانا ہے کہ دعوتوں کے اختتام پر جس انداز میں کچھ لوگ اپنے کارڈز میزوں پر رکھتے ہیں جن میں اُن کی جانب سے انتہائی مناسب معاوضے پر خدمات درج ہوتیں ہیں، یہ دورہ ایسے ہی کسی مقصد کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔ واللہ اعلم
ہم نہ جانے یہ کب سمجھیں گے کہ انکل سام اسلحے کا نہیں ڈر کا سوداگر ہے۔ اُس کا دھندہ ڈر پر چلتا ہے جیسے ہمارے گینگسٹر اور بھتہ خوروں کا۔ پاکستان کو بھارت سے ڈرا کر، بھارت کو چین سے ڈرا کر، جاپان کو شمالی کوریا سے ڈرا کر، کبھی عربوں کو اسرائیل سے ڈرا کر اور اب کچھ سالوں سے ایران سے ڈرا کر وہ اپنا پیٹ پال رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عربوں کو ڈرانے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں پڑتی بس اُن کے تخت کو تختہ کرنے والی کوئی کہانی سنا دیں وہ سب کچھ آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مغرب نے یہ طے کرلیا تھا کہ اب کوئی بھی جنگ اُن کی سرحدوں میں نہیں لڑی جائے گی مگر اپنا اسلحہ تیسری دنیا کے ممالک خصوصاً مسلم ممالک کو بیچنے اور اپنی معیشت چلانے کے لیے جنگ کے اسباب پیدا کرنے پڑیں گے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد جو بھی جنگیں ہوئیں وہ یورپ اور امریکا میں نہیں بلکہ مشرق بعید، ایشیاء اور بالخصوص مشرق وسطیٰ میں منعقد کی گئیں۔
حالیہ ریاض یاترا میں شیوخ نے ٹرمپ کے شانہ بشانہ جنگی رقص بھی کیا اور شاید ایران اور شام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ تاہم ہم یہ بھول گئے کہ ٹرمپ کے ساتھ کیا جانے والاجنگ کا رقص داعش اور دیگر انتہاپسندوں کے بیانیے کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرے گا اور اعتدال پسند مسلمان مسلکی بنیادوں پر مزید تقسیم در تقسیم ہوجائیں گے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عربوں کو ٹرمپ میں اپنا مسیحا نظر آیا جس کو اِس کے اپنے ہم وطن مسخرہ اور جھوٹا گردانتے ہیں۔
دوسری جانب حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ جنگ اور قربانیوں کو کون فراموش کرسکتا ہے لیکن ساتھ ہی حلب کے مسلمانوں کا خون اِس کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔مسلمانوں میں طویل عرصے سے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی روایت چلی آرہی ہے جبکہ کافروں کے نزدیک ہم مسلمان بلا تفریق نسل و مسلک سکہ بند کافر ہیں۔
صاحبو! قیادت اگر حکمت و فراست سے عاری ہوجائے تو زندگی ہر موڑ پر دم توڑتی نظر آتی ہے۔ ہم اپنی حالت پر نظر ڈالیں تو ہماری حالت تو بقول شاعر ایسی ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ بدقسمتی سے مسلکی بنیادوں پرشروع ہونے والی یہ جنگ پاکستان کے گلی کوچوں میں لڑی جارہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو نہ جانے کب تک لڑی جاتی رہے گی۔ یک طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہمارے مشرق میں بھارت ہے تو مغرب میں افغانستان اور ایران جن کے تعلقات ہم سے زیادہ بھارت کے ساتھ ہیں۔ ہم اِس لڑائی میں کودنے کے لیے نہ جانے کیوں اتنے بے قرارہیں جس میں قاتل بھی ہم ہی ہوں گے اورمقتول بھی۔ یہ نیکی اور بدی کی جنگ نہیں بلکہ مسلمانوں کے خاتمے کی جنگ ہے اور اِس میں شمولیت ہمیں وہاں لے جائے گی جہاں سے ہماری واپسی ناممکن ہوگی۔
عرب اسلامی امریکی کانفرنس کے بعد ہماری حکومت کو جو فیصلہ کرنا ہے وہ نہ جانے کب کرے گی لیکن ٹرمپ نے 110 ارب ڈالر کے عوض تلوار اٹھا کر اپنا فیصلہ تو کرلیا ہے۔