دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی خلائی دوربین کچھ ہی گھنٹوں میں مدار میں جانے والی ہے
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کو آریان فائیو راکٹ کے ذریعے فرینچ گیانا سے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلا میں چھوڑا جائے گا
اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں 30 برس کا عرصہ لگا ہے اور اسے 21 ویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ یہ دوربین ’ماضی میں جھانک کر ابتدائی کائنات کی اولین کہکشاؤں کو دیکھ سکے گی
جیمز ویب دوربین دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی فضا کا جائزہ لے کر وہاں پائی جانے والی ممکنہ زندگی کا سراغ لگانے کی بھی اہل ہو گی۔
ڈاکٹر امبر نکول سٹروگن کہتی ہیں کہ ’سائنسدان جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے پہلے برس میں کیے جانے والے مشاہدوں کے بارے میں پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ہمارے نظام شمسی میں موجود سیاروں سے لے کر ان کہکشاؤں کے بارے میں جاننے سے متعلق ہے جو 13.5 ارب برس پہلے وجود میں آئیں۔ اس کے علاوہ خلا اور وقت کے درمیان ہر چیز کا مشاہدہ کیا جائے گا۔
یہ دوربین دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کا سراغ بھی لگائے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ دوسرے سیاروں کے ماحول میں کس قسم کے مالیکیول موجود ہیں۔
ڈاکٹر سٹروگن کہتی ہیں کہ ’یقینی طور پر ہم یہ وعدہ نہیں کر سکتے کہ ہم زندگی کے آثار ڈھونڈ لیں گے۔‘
’لیکن یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ یہ دوربین کہکشاں میں رہنے کے قابل سیاروں کی تلاش میں ایک بہت بڑا قدم ثابت ہو گی۔
ڈاکٹر سٹروگن کے مطابق اس دوربین سے بہت کچھ حاصل ہونے والا ہے۔
’کائنات کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو گا اور ہمارے ارد گرد موجود ہر چیز کے ساتھ تعلق مزید مضبوط ہو گا۔
یہ بھی پڑ ھیں : ناسا کا بغیر پائلٹ خلائی جہاز ‘انسائٹ’ کامیابی سے مریخ پر پہنچ گیا
ڈاکٹر سٹروگن کہتی ہیں کہ ’جب ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں، رات کے وقت آسمان کو دیکھتے ہیں تو مجھے ایک تعلق کا احساس ہوتا ہے کہ ہم اس کائنات میں تنہا نہیں ہیں۔‘
’ہم انسان ایک ستارے کی باقیات سے وجود میں آئے جو اربوں برس پہلے پھٹ گیا تھا۔ ہم اس کائنات سے منسلک ہیں۔ میرے خیال میں یہ ہمیشہ بہت اہم رہا ہے کہ ہم زندگی کے بارے میں ایک بڑے زاویے کا استعمال کریں۔
اس ٹیلی سکوپ کو اس منزل تک لانا آسان نہیں رہا ہے۔ برسوں کی تاخیر اور ابتدائی اندازوں سے اربوں ڈالر زیادہ خرچ ہوئے، یہاں تک کہ کئی مقامات پر اس منصوبے کو منسوخ کرنے کے بھی مطالبے کیے گئے مگر سائنسدان ڈٹے رہے۔
اب یہ راکٹ میں نصب ہو چکی ہے اور چند گھنٹوں میں خلا میں روانہ کر دی جائے گی۔
لانچ بہت تناؤ سے بھرپور ہو گی مگر اصل تناؤ لانچ کے بعد شروع ہو گا۔ یہ ٹیلی سکوپ کسی ٹینس کورٹ جتنی بڑی ہے اور اس کا مکمل طور پر کھل کر اپنے آپ کو پھیلانا خلائی تاریخ میں اب تک کا سب سے مشکل کام ہو گا۔ ایسے 300 سے زیادہ لمحات ہوں گے جب کچھ بھی غلط ہوا تو کھیل تمام، مگر زیادہ خطرے کا مطلب ہی زیادہ فائدہ ہے۔
یہ دوربین ہمیں ہماری کائناتی تاریخ کے ہر مرحلے کے حیران کُن نئے مناظر دکھائے گی اور انسانیت کے سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک کا جواب بھی دینے میں مدد کرے گی، کہ کائنات کیسے شروع ہوئی اور کیا ہم اس میں اکیلے ہیں؟
اور اگر ویب ٹیلی سکوپ یہ کر پائی تو یہ بازی جیتی ہوئی تصور کی جائے گی۔