عمرکوٹ: الیکشن کے وقت آتے ہیں کہتے ہیں چلو بابا چلو ووٹ دینے چلو، اس کے بعد انگوٹھا لگوا کر انگوٹھا دکھا دیتے ہیں، جس گاڑی میں گھر سے لے جاتے ہیں بعض اوقات وہ گاڑی بھی گھر واپسی کے لیے دستیاب نہیں ہوتی
70 سالہ ونی اوڈ عمرکوٹ کے گوٹھ رامجی اوڈ میں رہتی ہیں جہاں پر بنیادی سہولیات جیسا کہ پینے کے پانی کی سہولت تک دستیاب نہیں۔ اس گوٹھ کے قرب و جوار میں کوئی سکول یا صحت مرکز بھی واقع نہیں۔ ونی اوڈ کہتی ہیں کہ منتخب نمائندے الیکشن میں ووٹ ملنے کے بعد یہاں آنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق عمرکوٹ ضلع میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ 10 لاکھ 73 ہزار آبادی والے ضلع عمر کوٹ میں ہندوؤں کی آبادی لگ بھگ 52 فیصد ہے، اس کے باوجود منتخب ایوانوں میں اس ضلع سے کوئی بھی ہندو رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔
عمرکوٹ کراچی سے تقریباً 325 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مغل سلطنت کے بانی شہنشاہ اکبر کی پیدائش اور سندھ کی لوک داستان عمر ماروی نے بھی یہاں جنم لیا تھا، اس شہر کا نام یہاں موجود قلعہ سے وابستہ ہے جہاں راجپوت ٹھاکر گھرانے اور سومرو حکمران رہے ہیں۔
عمرکوٹ کا قلعہ اس خطے میں سیاست کی کنجی سمجھا جاتا تھا۔ یہ راجستھان کے مارواڑ اور وادی مہران کے اہم سنگم پر موجود ہے، ایک طرف صحرا ہے تو دوسری طرف نہری پانی سے آباد ہونے والا سرسبز علاقہ ہے۔
پریم ساگر مقامی سبزی منڈی کے سابق صدر ہیں اور وہ آڑھت کا کام کرتے ہیں۔ اُن کے آباؤ اجداد بھی اس پیشے سے وابستہ رہے ہیں، قیام پاکستان سے قبل صرف مالھی برادری آڑھت کا کام کرتی تھی مگر بعد میں اس کاروبار میں دیگر کمیونٹیز بھی شامل ہو گئیں۔
یہ بھی پڑ ھیں : کراچی اور دیہی سندھ کے اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارشیں
پریم ساگر کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں آج بھی اسی فیصد دکانیں ہندو کموینٹی کی ہیں جبکہ 20 فیصد مسلم ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر سبزیوں کی کاشت ہوتی ہے جبکہ فروٹ ملک کے دیگر علاقوں سے آتا ہے۔
عمرکوٹ کی معشیت کا تمام تر دارد مدار زراعت پر ہے۔ زمینداروں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے جبکہ کسان 80 فیصد ہندو دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شہروں میں دکانداروں کی اکثریت اپر کاسٹ ہندوؤں کی ہے، صرافہ، کھاد و بیج کی دکانوں پر اُن کی ہی گرفت ہے۔
پہلے یہ علاقہ تھرپارکر کا حصہ تھا۔ عمرکوٹ کو ضلعے کی حیثیت حاصل ہونے کے بعد سنہ 1993 کے انتخابات سے لے کر آج تک پاکستان پیپلز پارٹی یہاں سے کامیاب ہوتی آئی ہے جبکہ دیگر جماعتوں میں مسلم لیگ فنکشنل دوسری بڑی جماعت ہے اس کے علاوہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف بھی مقامی سیاستدانوں کی ہمدریوں کی تبدیلی کے ساتھ اپنے امیدوار سامنے لاتی رہی ہیں۔
’میرپورخاص، عمرکوٹ اور تھر میں غیرمسلم آبادی زیادہ ہے، وہاں ہم نے مثالیں قائم کیں ہیں۔ ایک سینیٹر کرشنا کماری جبکہ تھر سے مہیش کمار ملانی عام نشست پر ایم این اے ہیں۔ عمرکوٹ میں اگر یوسف تالپور اقلیتیوں کے بل بوتے پر جیت جاتے ہیں تو ان کا قد و کاٹھ ہے، اُن کی آواز میں دم ہے، ایسی آواز کو محروم نہیں کر سکتے، کھٹو مل کو نمائندگی دے کر مشیر بنا دیا گیا ہے۔‘
سرکاری ملازمتیں زیادہ تر محکمہ تعلیم، صحت، پولیس اور میونسپل نظام میں ہے۔ صرف میونسپل کمیٹی میں 209 کل ملازم ہیں جن میں سے 60 فیصد مسلم ہیں جبکہ باقی 40 فیصد میں سینیٹری ورکرز بھی شامل ہیں۔
عمرکوٹ میں مذہب کی تبدیلی کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔ عمومی طور پر جبری مذہب تبدیلی کے الزامات بھی یہاں سے سامنے آتے رہتے ہیں۔
عمرکوٹ کی سیاست اور معشیت کا اُتار چڑھاؤ اپنی جگہ لیکن اس ضلع میں مذہبی ہم آہنگی آج بھی موجود ہے۔ محرم الحرم ہو یا ہولی و دیوالی یہ مذہبی ہم آہنگی ہر جگہ نظر آتی ہے۔
پیر پتھورو عمرکوٹ کا ایک بڑا دربار ہے جہاں مسلم اور ہندو دونوں ہی آتے ہیں۔ اس کو ’نصف ملتان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دربار سے منسلک گھنور سنگھ کہتے ہیں کہ ہم ملتان والوں کو پیر تسلیم کرتے ہیں، وہ ہمیں تسلیم کرتے ہیں، اُن کے گدی نشیں یہاں آتے ہیں کیونکہ پیری کی دستار ہمیں وہاں سے ہی ملی ہے۔