بلاگ

شادی کی تے غلطی کی

کنوارا ہونا گرچہ خوش قسمتی ہے اور شادی شدہ کی ’’اپنی قسمت‘‘ ہوتی ہے۔ یٰسین مرزا کہتے ہیں کہ بیوی خوبصورت ہو تو نظر نہیں ہٹتی اور بدصورت ہو تو نظر نہیں لگتی۔ از روئے مذہب ہر بیوی کا ایک شوہر اور ہر شوہر کی کئی بیویاں ہوسکتی ہیں۔ محبوبہ کو بیوی بنانا آسان ہے صرف ایک نکاح خواں، چند گواہ اور چھوہارے کی ضروت ہوتی ہے۔ مگر بیوی کو محبوبہ بنائے رکھنے کے لیے پوری تنخواہ، پورا دل، پوری آنکھیں، پورا بیڈ روم اور پوری صاف ستھری نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بیوی شوہر کا دل اور گھر کا آنگن صاف رکھتی ہے۔ وہ بیوی کم، ہدایت اور نیکی کا فرشتہ زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر شوہر اپنی بیوی سے شاکی رہتے ہیں کیونکہ انسان ہر سال نیا سیل فون تو خرید لیتا ہے مگر بیوی وہی رہتی ہے۔

انسان کی آدھی عمر ماں کے ہاتھ کا کھانا کھا کر اور باقی آدھی عمر بیوی کے ہاتھ کا کھانا کھاکر گزر جاتی ہے۔ جو شوہر بیوی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے، ان کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو کھاتے ہیں انہیں عمر دراز لگتی ہے۔ بیوی کی تعریفیں کرنا ہر شوہر کا نکاحی فریضہ ہے۔ یہ واحد کام ہے جس میں بولا گیا جھوٹ بھی قابلِ معافی ہے۔ ہمارے دوست علیل جبران کو میں نے جب بھی دیکھا وہ بیگم کا ہاتھ تھامے رہتے ہیں۔ ہم نے ان کی اس مثالی محبت کا تذکرہ رشک آمیز لہجے میں ان کے سامنے کیا، تو وہ بولے اس میں محبت کا عنصر کم اور بچت کا پہلو زیادہ ہے؟ ہم نے پوچھا وہ کیسے؟ بولے ہاتھ نہ تھامو تو وہ فوراً شاپنگ کے لیے بھاگتی ہے۔

غیر شادی شدہ ہمیشہ شادی شدہ سے دانا ہوتا ہے، جبھی تو وہ غیر شادی شدہ ہوتا ہے، جبکہ تجربہ کار دانا وہ ہوتا ہے جو غلطی کرنے کے بعد سدھار لیتا ہے۔ شادی کرنا اور درویشی اختیار کرنا ایک جیسی بات ہے۔ دونوں کو دنیا ترک کرنی پڑتی ہے، ایک کو اللہ مل جاتا ہے، دوسرے کو بیوی۔ ایک دانا کا کہنا ہے کہ شادی ایک ایسی جنگ ہے جس میں آپ کو اپنے دشمن کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ محبوبہ کی محبت میں آنکھیں بند رہتی ہیں، مگر بیوی پاکر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ شادی کے پہلے سال بیوی محبوبہ لگتی ہے، دوسرے سال سے چوتھے سال تک دوست اور اس کے بعد تا زندگی وہ دشمن جسے آپ چھوڑ بھی نہیں سکتے۔

علیل جبران کہتے ہیں شوہر کی حیثیت جسم میں سر کی طرح ہوتی ہے اور بیوی گردن ہوتی ہے جو سر کو جس جانب چاہے موڑ سکتی ہے۔ بیوی پر جتنا خرچ کیا جائے یا لکھا جائے کم ہے۔ کچھ لوگ شادی کے بعد ناول نگار بن جاتے ہیں یا پھر شاعر، اسے کہتے ہیں بیوی سے فرار، جو ان دونوں عہدوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں، وہ ایڈیٹر بن کر لکھتے رہتے ہیں یا دوسروں کے لکھے کو پڑھتے رہتے ہیں، قسمت کا لکھا کون مٹا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی دوسروں کے لکھے کو کبھی مٹانے اور کبھی نمٹانے کی کوشش میں جی لگائے رکھتے ہیں۔ جن کی بیویوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے، وہ اپنے ساتھ پہلے اسلحہ، گولہ بارود رکھتے ہیں، پھر پوری فوج بنا لیتے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان کے امیر ملا فضل اللہ نے بھی ایک سے زائد شادیاں کیں، اور جن سے شادیاں نہیں کرسکے انہیں جہاد النکاح کے فتوے جاری ہونے سے بھی قبل اغواء النکاح کے ذریعے اپنے حرم میں داخل کر لیا۔ ریڈیو سے شہرت پانے والے ملا ریڈیو گرچہ سوات میں نفاذ شریعت کا اپنا متبرک وعدہ وفا نہ کرسکے، اور ’’مشرک آرمی‘‘ کے خوف سے افغانستان جا پہنچے، لیکن سوات میں رہنے والوں کے دلوں میں شریعت کا عشق اس قدر ’’پھونک‘‘ گئے کہ اب وہ اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ ملا ریڈیو کے ’’ایمان کامل‘‘ کی تاثیر اس قدر اکسیر تھی کہ امریکہ جیسی ناپاک قوت بھی ان کے سامنے جھک گئی، اور جب ملا کو سوات سے افغانستان جانے کی ضرورت پیش آئی تو امریکی اپنا ہیلی کاپٹر ان کے قدموں پر نچھاور کرگئے۔ ویسے بھی وادی میں مشرکوں کی آمد ان کی ’’طبیعت سلیم‘‘ پر ثقیل گزرتی تھی، اور افغانستان میں چہار سو جہادی ماحول، اور لہو و بارود کی مہک ان کے مزاج کے عین مطابق تھے۔

آپ جناب کے اقدام اس قدر ’’راست‘‘ اور ’’عین شریعت‘‘ پر مبنی تھے کہ آپ کے ہر عمل کو عصر حاضر کے’’حقیقی‘‘ مفتیوں نے عین کار ثواب قرار دیا۔ وادی سوات کی پہاڑی بستیوں سے جب بچیوں، لڑکیوں یا خواتین کی گمشدگی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا تو چند بزرگوں نے ہاتھ جوڑ کر آپ سے التجا کی کہ بچیوں کو اغوا کے بجائے ہمیں اپنی پسند ناپسند سے آگاہ فرمائیں۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پہاڑی بستیوں میں بسنے والی معصوم بچیوں کی بڑی تعداد ملا ریڈیو کے ساتھیوں کی منکوحہ قرار پائیں۔ ملا فضل اللہ کا پھونکا گیا اعلان شریعت اتنا اثر انگیز ثابت ہوا کہ سوات میں تحریک انصاف کے تمام ضلعی عہدیدران نے اپنے کارکنان اور وابستگان کے ہمراہ ایک ساتھ پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ پی ٹی آئی کے ضلعی سیکرٹری جنرل محمد زیب خان نے وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان پر سخت الزامات عائد کئے اور انہیں تبدیلی کے نام پر ایک دھوکہ قرار دیا اور تحریک انصاف کو انصاف کی قاتل قرار دیا۔

تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ سوات میں پی ٹی آئی کے ضلعی سیٹ اپ کے خاتمے کی بنیادی وجہ ملا فضل اللہ ہیں۔ انہوں نے سوات کے عوام کی شرعی سوجھ بوجھ میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ وہ ہر خبر کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ عوام کو خبر ملی تھی کہ عمران خان کی سابقہ بیوی جمائما خان دوسری شادی کرنے والی ہیں۔ جس شخص سے وہ دوسری شادی کرنے جا رہی ہیں وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔ اب شرعی مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر جمائما دوسری شادی غیر اسلامی طریقے سے کرتی ہیں تو اسلام چھوڑنے کے سنگین جرم میں وہ واجب القتل قرار پا جائیں گی، کیونکہ عمران خان سے شادی کے وقت اس نے اسلام قبول کیا تھا اور اگر اس کی یہ شادی شرعی طلاق کے بغیر انجام پائی تو ان پر سنگساری کی سزا واجب ہوجائے گی۔

اب پی ٹی آئی کے ضلعی عہدیدران کے لیے سلمان خان اور قاسم خان کی والدہ کا شرعی دفاع نہایت مشکل ہوچکا تھا۔ جس سے تنگ آکر ضلعی عہدیداروں نے پی ٹی آئی سے ناطہ توڑ لیا۔ اب عمران خان جو عموماً ملا فضل اللہ سے متعلق محبت آمیز بیانات شائد اس امید پر جاری کرتے ہیں کہ مسئلہ کا ’’شرعی حل‘‘ اس طرح سے نکالا جائے، کہ یہ سزائیں لاگو نہ ہوں اور سوات سمیت خیبر پختونخوا کے اسلام و شریعت پسند عوام اس مسئلہ کو زیادہ سنجیدہ نہ لیں۔ ملا ریڈیو عمران خان کی امید پر پورا اترتے ہیں یا نہیں، اس کا انتظار رہے گا۔ پی ٹی آئی کے متوالے جمائما کو اپنے قائد کی غلطی قرار دیتے ہیں جبکہ عمران خان خوب جانتے ہیں یہ حکومت، یہ سیاست، یہ چرچے اور تبدیلی کے خوشنما نعرے، سبھی اسی غلطی کے دم سے نصیب ہوئے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close